ارض موعود

وعدے کی زمین نہیں آئی
وہ اونچا شیخ جو سب نظروں میں گھرا ہوا ہے
بے پروا معصوم اٹل
وہ گہرا ساگر جس کی تھاہ میں اپنے سوا کوئی بھی نہیں
وعدے کی زمین نہیں آئی
نومیدی پتھرا دے نہ کہیں
بیتابی جھلسا دے نہ کہیں
کھو جائے نہ خودی کھوج کا گھائل پنچھی اڑان کے ساتھ
اندھیاری گھاٹی میں


ہم ہیں تو یہی غنیمت ہے
ہم ہیں تو زندہ ہے وعدوں کا اگم
موجوں کے بعد ابلتی موجوں کا دھارا
جو فراموشی کے ریگستان میں بہتا ہے
اس کی راہیں پہلے ہی سے مقرر ہیں
اور ان سے ہٹ کر کوئی راہ نہیں
سنگین سچ کی پتھریلی زمینوں میں
ارمانوں کا زریں کہرا بکھرتا
سچ کے سوتوں سے پھوٹتا رنگین جھوٹ
البیلے نڈر سپنوں کا بہتا گاتا جل
اس موڑ پہ اپنی منزل سے بھی فزوں تر ہے


پھر اپنا دوش ہی کیا
ایفا کے سورج پگھل جاتے ہیں
وعدوں کی لالی میں گھل مل جاتے ہیں
ہنگام طلوع و غروب سے دور
دن بڑھتا ہے نا رات گزرتی ہے
بہتے ہیں اجالے شوخ رسیلے
اور مدماتے دھندلکے جیسے بسنت
وعدے ان گنت کھلا کرتے ہیں پھولوں میں
چمکا کرتے ہیں ستاروں میں
دھڑکنوں میں سانسوں میں


اک سماں سہانا چھایا رہتا ہے دھرتی سے آکاش کے بیچ
دل سے آنکھوں تک ازل ابد کی وسعت میں