مضمون

خانساماں شہزادہ

بمبئی کے تاج محل ہوٹل میں مہاراجہ بھاؤ نگر ٹھہرے ہوئے تھے۔ برسات کا موسم تھا۔ سمندر میں صبح شام طوفان برپا رہتا تھا اور پانی کی آوازوں سے مسافروں کی بات سننی بھی دشوار تھی۔ تاج محل ہوٹل میں ایک خانساماں ستر اسی برس کی عمر کا نوکر تھا، جو اپنے کام میں بہت ہوشیار اور تجربہ ...

مزید پڑھیے

ٹھیلہ والا شہزادہ

۱۹۱۱ء کے دربار میں دہلی کے دن پھرے۔ نئے شہر کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ نقشے بنے۔ نامورانجینئروں کی دماغ آرائیاں اپنے جوہر دکھانے لگیں۔ شاہان اودھ کی مورث منصور علی خاں صفدر جنگ کے مقبرہ کے آس پاس کئی اینٹ بنانے اور پکانے کے کارخانے جاری ہوئے۔ ہزاروں غریبوں کا روزگار چمکا۔ پکی ...

مزید پڑھیے

اقبال اور جرمن فلسفہ

ہر فلسفی کا اپنا ایک فلسفیانہ نظام ہوتا ہے، جس میں حسیات، مقولات (Categories) اور تعقلات (Concepts) کسی فلسفیانہ نظام کے داخلی تقاضوں کے تحت تشکیل دیے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مختلف فلسفوں میں مقولات، تعقلات اور خیالات مختلف مفاہیم رکھتے ہیں اور ان مقولات اور تعقلات کا استعمال جس طریقے ...

مزید پڑھیے

ادب، گھوڑے سے گفتگو

پاکستان کے بارے میں چیخوف نے ایک افسانہ لکھا ہے۔ اگر کسی دوست کو یہ یاد ہے کہ اس افسانے کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں تو وہ مجھے یہ سوچ کر معاف کر دے کہ اپنے بارے میں جو بات ہوتی ہے، وہ بار بار یاد آتی ہے۔ اس افسانے میں ایک کوچوان کا بیٹا مر گیا ہے۔ وہ دن بھر سواریاں ڈھوتا ہے۔ ...

مزید پڑھیے

سجاد ظہیر کا نظریۂ ادب

ہمارے بزرگ خط لکھتے ہوئے بالعموم اس فقرے پر اسے تمام کرتے تھے۔ برخوردار اِس تھوڑے لکھے کو بہت سمجھ اور اپنی خیریت و حالات تفصیل سے لکھ۔ خطوں میں لکھا جانے والا یہ رسمی فقرہ اس وقت جب میں سجاد ظہیر کی تحریریں پڑھ رہا ہوں بہت بامعنی نظر آ رہا ہے۔ یہاں نقشہ یہ ہے کہ تھوڑا ناول ...

مزید پڑھیے

ناول، حقیقت نگاری اور غالب

یہ درست ہے کہ اردو میں ناول کی داغ بیل ڈپٹی نذیر احمد نے ڈالی اور مختصر افسانے کے باوا آدم منشی پریم چند ہیں۔ پھر بھی میرا یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ نئے اردو فکشن کی تاریخ غالب سے شروع ہونی چاہئے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ادب میں غالب کی ذات ایک دوراہا ہے۔ شاعری کی ایک ...

مزید پڑھیے

اجتماعی تہذیب اور افسانہ

ایک روز کا ذکر ہے کہ لاہور کے آسمان پر ایک دودھیا دھاری کھنچتی دکھائی دی۔ غورسے دیکھا تو بہت بلندی پر ایک گول سی چیز حرکت کرتی نظر آئی۔ یہ لمبی دودھیا دھاری اسی کی دم تھی۔ شہر میں یہ خبر اڑ گئی کہ اسٹپنک گزر رہا ہے، مگر دوسرے دن اخباروں میں ایک تردیدی خبر شائع ہوئی کہ وہ گول سی ...

مزید پڑھیے

لکھنا آج کے زمانے میں

میں سوچتا ہوں کہ ہم غالب سے کتنے مختلف زمانے میں جی رہے ہیں۔ اس شخص کا پیشہ آبا سپہ گری تھا۔ شاعری کو اس نے ذریعۂ عزت نہیں سمجھا۔ غالب کی عزت غالب کی شاعری تھی۔ شاعری اس کے لیے کسی دوسری عزت کا ذریعہ نہ بن سکی۔ اب شاعری ہمارے لیے ذریعۂ عزت ہے مگر خود شاعری عزت کی چیز نہیں رہی اور ...

مزید پڑھیے

گمشدہ امیر خسرو

امیر خسرو اپنے زمانے میں ایک امیر خسرو تھے۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے ایک سے کئی بن گئے۔ جامع اور سالم شخصیتوں کے ساتھ مشکل یہی تو ہوتی ہے کہ تصور میں ان کا اکٹھا سمانا مشکل ہوتا ہے۔ اُدھر آدمی بہت پھیلا ہوا تھا۔ ادھر روز بروز نظر کمزور اور تصور محدود ہوتا جا رہا تھا تو مختلف ...

مزید پڑھیے

رسم الخط اور پھول

بات ہے رسم الخط کی لیکن معاف کیجئے مجھے ایک اشتہاری اعلان یاد آ رہا ہے جو سن لائٹ صابون والوں کی طرف سے ہوا ہے۔ سن لائٹ کی کسی ٹکیا میں انہوں نے ایک چابی چھپاکر رکھ دی ہے، جس کسی خریدار کی ٹکیا سے یہ چابی نکلےگی اسے وہ ایک مؤثر انعام دیں گے۔ اس اعلان کے بعد سے پاکستان کے شہروں میں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 60 سے 77