اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی

جرأت نابینا تھے ۔ایک روز بیٹھے فکر سخن کررہے تھے کہ انشاءؔ آگئے ۔ انہیں محو پایا تو پوچھا۔’’حضرت کس سوچ میں ہیں؟‘‘
جرأت نے کہا’’کچھ نہیں ،بس ایک مصرعہ ہوا ہے ۔شعر مکمل کرنے کی فکر میں ہوں۔‘‘ انشاءؔ نے عرض کیا ’’کچھ ہمیں بھی پتہ چلے ‘‘
جرأت نے کہا’’نہیں !تم گرہ لگاکر مصرعہ مجھ سے چھین لوگے‘‘ آخر بڑے اصرار کے بعد جرأت نے بتایا مصرعہ تھا
’’اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی‘‘
انشاءؔ نے فوراً گرہ لگائی :
’’اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی‘‘
جرأت لاٹھی اٹھاکر انشاءؔ کی طرف لپکے۔دیر تک انشاءؔ آگے اور جرأت پیچھے پیچھے انہیں ٹٹولتے ہوئے بھاگتے رہے۔