ال زائمر

لفظ بھول جاتا ہوں
بات کہہ نہیں پاتا
موتیوں سے پانی پر
عکس تو بناتا ہوں
کچھ میں یاد رکھتا ہوں
کچھ میں بھول جاتا ہوں
روشنی کو تکتا ہوں
تھوڑی دیر چلتا ہوں
دل میں بات جو بھی ہے
تم سے کہہ نہیں پاتا
لفظ بھول جاتا ہوں
پھر یہ سوچ آتی ہے
دل کی بات کرنے کو
لفظ کیوں ضروری ہیں
جو بھی تم کو پڑھنا ہے
سب لکھا ہے آنکھوں میں
ہو سکے تو پڑھ لینا
پڑھ اگر نہ پاؤ تو
خود سے ہی بنا لینا
پھر ذرا سنبھلتا ہوں
اک چھڑی پکڑتا ہوں
کھڑکیوں کے پنے پر
اک شبیہ بناتا ہوں
کچھ میں یاد رکھتا ہوں
کچھ میں بھول جاتا ہوں
ان کہی سی باتوں میں
سلسلے پرانے ہیں
کیسے کیسے چہرے ہیں
کیسے دوستانے ہیں
زندگی ذرا سی ہے
مختصر فسانے ہیں
راکھ دل کریدیں تو
دفن کتنی یادیں ہیں
کیسے کیسے چہرے ہیں
قیمتی خزانے ہیں