عجیب رنگ لیے آج ملنے آیا وہ
عجیب رنگ لیے آج ملنے آیا وہ
ذرا سی دیر میں لگنے لگا پرایا وہ
وہی گلی ہے وہی شام ہے وہی وحشت
پر اس دریچے میں چہرہ نہ جھلملایا وہ
نہ جانے بھیگ رہی ہیں ابھی سے کیوں آنکھیں
ابھی نہ شام ہوئی ہے نہ یاد آیا وہ
رکھا دل اس نے بھرم کچھ تو وحشتوں کا تری
جب اس کو پاس بلایا تو پاس آیا وہ
نہیں تھی سہل مرے ساتھ زندگی لیکن
کبھی نہ حرف شکایت زباں پہ لایا وہ
مزاج اس کا بتائیں کسی کو کیا خاورؔ
کہیں پہ دھوپ لگا ہے کہیں پہ سایا وہ