عجیب لوگ ہیں
عجیب لوگ تھے
سورج کی روشنی کے تلے
خود اپنے آپ کو پہچان بھی رہے تھے
اور
لبوں پہ دعویٰ انکار آفتاب بھی تھا
وہ جانتے تھے کہ سورج کی روشنی کے سوا
کوئی چراغ میسر نہیں ہے ایسا جو
تلاش اصل حقیقت کے زینے چڑھتے ہوئے
بے امتیازی میں اس آفتاب جیسا ہو
عجیب لوگ تھے
سورج کے نور خانے میں
کرایہ دار بھی تھے اور سرنگوں نہیں تھے
کسی شرار منافق نے ان کے سینوں میں
زباں درازی کی اس آگ کو ہوا دی تھی
جسے قبیلۂ غفلت کے خشک لوگوں نے
انا کے خبط پہ افلاک سے نکالے ہوئے
کسی درندۂ بے شکل کی تسلی پر
برائے نشۂ حیوانیت اٹھا لیا تھا
مگر یہ کیا
کہ پھر آج اس ہماری بستی میں
عجیب لوگ ہیں
سورج کی روشنی کے تلے
خود اپنے آپ کو پہچان بھی رہے ہیں
اور
لبوں پہ دعویٰ انکار آفتاب بھی ہے
عجیب لوگ ہیں
سورج کے نور خانے میں
کرایہ دار بھی ہیں
اور سرنگوں نہیں ہیں