عجب ہیں ہم یہ کس کی سعئ لا حاصل پہ روتے ہیں
عجب ہیں ہم یہ کس کی سعئ لا حاصل پہ روتے ہیں
ابھی زندہ ہیں اور ناکامیٔ قاتل پہ روتے ہیں
ہمیں رہ رہ کے طوفاں کی رفاقت یاد آتی ہے
ہیں اب آسودۂ ساحل کھڑے ساحل پہ روتے ہیں
بہت ہم کو رلایا ماضی و امروز نے سو اب
نشاط گریہ ایسا ہے کہ مستقبل پہ روتے ہیں
گروہ عاشقاں تھا شہر گریہ ان کی منزل تھی
یہ رستے بھر بھی روتے آئے اب منزل پہ روتے ہیں
کہاں روتے ہیں ہم آغاز تنسیخ تعلق پر
جو کھینچی جا چکی ہے اس حد فاصل پہ روتے ہیں