ایسی تحریر جو آنسو کی جھڑی ثابت ہو

ایسی تحریر جو آنسو کی جھڑی ثابت ہو
پھر توقع کہ محبت بھی کڑی ثابت ہو


کیوں بچھاتے ہو مری راہ میں لفظی کانٹے
دو وہ پیغام جو موتی کی لڑی ثابت ہو


تیری شمشیر کا شاخ گل الفت پہ ہو وار
کیسے ممکن کہ وہ پھولوں کی چھڑی ثابت ہو


بے نیازی تری بڑھتی ہی رہی روز و شب
تیری فرقت میں کوئی اچھی گھڑی ثابت ہو


موت آنی ہے تو آ جائے کسی دن لیکن
زندگی بھی کبھی راہوں میں پڑی ثابت ہو


کاش آ جائے یقیں میری محبت کا تجھے
میری چاہت تری ہر شے سے بڑی ثابت ہو


روٹھ کر جب میں چلوں راہ عدم کی جانب
راہ روکے تری آواز کھڑی ثابت ہو


دل میں چاہت ہے غزلؔ صرف تجھے پانے کی
کوئی تو وصل کی انمول گھڑی ثابت ہو