اب زندگی کا کوئی سہارا نہیں رہا

اب زندگی کا کوئی سہارا نہیں رہا
سب غیر ہیں کوئی بھی ہمارا نہیں رہا


اغیار کی نظر میں رہے مثل خار ہم
اب جینا جاگنا بھی ہمارا نہیں رہا


صوبائی عصبیت نے کھلائے کچھ ایسے گل
اب بھائی بھائی کا بھی سہارا نہیں رہا


اب تو ہماری ناؤ ہے طغیانیوں کے بیچ
نزدیک و دور کوئی کنارا نہیں رہا


خون جگر سے سینچا تھا ہم نے جو اک شجر
ہاں اب تو وہ شجر بھی ہمارا نہیں رہا


چن چن کے تنکے ہم نے بنایا تھا آشیاں
یہ کیا غضب وہ گھر بھی ہمارا نہیں رہا


ماضی کی کچھ حسین سی یادیں ہی رہ گئیں
آنکھوں میں اور کوئی نظارہ نہیں رہا


اہل چمن یہ کہتے ہیں آگے بڑھوں غزلؔ
اب کوئی حق چمن یہ تمہارا نہیں رہا