ایسے ہی نہیں اتنی یہ شوقین ہوئی ہے

ایسے ہی نہیں اتنی یہ شوقین ہوئی ہے
تحریر مری خون سے رنگین ہوئی ہے


اے عقل گنہ گار تری بات میں آ کر
شہر دل جذبات کی توہین ہوئی ہے


گزرے گی قیامت ابھی اک سمت گماں سے
آنکھوں کو کھلا رکھنے کی تلقین ہوئی ہے


اس شہر دل آزار کے ہر کوچے گلی میں
خوابوں کی بڑی دھوم سے تدفین ہوئی ہے


اٹھتا ہے دیوانوں کا یہاں روز جنازہ
اے ارض وطن تو بھی فلسطین ہوئی ہے


ہوں اس لیے گلفامؔ شگفتہ میں گلوں سے
کانٹوں سے مرے حسن کی تزئین ہوئی ہے