احوال چھپاتے ہیں کیا جانئے کیا جی کا

احوال چھپاتے ہیں کیا جانئے کیا جی کا
چہرے سے بڑی عینک ماتھے سے بڑا ٹپکا


اب عمر کے خیمے میں پیوند ہی لگنے ہیں
صحرائے عرب ہو یا بازی گہ امریکہ


شرمندۂ ہستی ہیں پہچان ہماری کیا
کاسہ ہی تو ہوتا ہے چہرہ بھی سوالی کا


میری ہی کہانی ہے میرا ہی حوالہ ہے
یا تان ہو میراؔ کی یا شعر ہو سعدیؔ کا


میں اپنی سیہ روزی پر حرف نہ آنے دوں
قصہ جو کبھی نکلے تابندہ لیالی کا


بس میں تو نہیں اس کے تدبیر تدارک کی
احساس اسے ہو بھی گر میری تباہی کا


جنگل میں ہوں شاید ہم کچھ کم ہی سراسیمہ
شہروں میں تو نافذ ہے قانون سفاری کا


گھر جس نے کیا دل میں شاہینؔ عجب شے ہے
مٹی سا ہے رنگ اس کا اور نام انامیکا