آشنا ہو کر بھی اس نے مجھ کو پہچانا نہ تھا

آشنا ہو کر بھی اس نے مجھ کو پہچانا نہ تھا
اس کے اس برتاؤ کا کچھ مجھ کو اندازہ نہ تھا


ایسے اک تپتے سفر کی داستاں تھی زندگی
دھوپ تھی سائے میں لیکن دھوپ میں سایہ نہ تھا


کیا کہوں تجھ سے بچھڑ کر زندگی کیسے کٹی
حرکتیں کرتی تھی سانسیں اور میں زندہ نہ تھا


گر گیا کیوں یک بہ یک تارا زمیں پر ٹوٹ کر
آسماں دیکھا تھا میں نے اور کچھ مانگا نہ تھا


ہم زباں سب تھے ندارد بھیڑ کے اس شہر میں
گرد میرے بلڈنگیں تھی کوئی ہم سایہ نہ تھا


پھر بھی اس رشتے کو میں نے ٹوٹ کر چاہا پونؔ
وہ کہ جس رشتے سے میرا کوئی بھی ناطہ نہ تھا