آشنا دل کو جلانے آئے

آشنا دل کو جلانے آئے
تیرے قصے ہی سنانے آئے


دل ہی دل میں ہے پشیماں دونو
کون اب کس کو منانے آئے


کچھ تو ملنے کی ہو صورت پیدا
ترک الفت کے بہانے آئے


اک تمنا ہے کہ اب میں روٹھوں
اور وہ مجھ کو منانے آئے


میری نیندوں میں وہ شامل ہو کر
مجھ کو مجھ سے ہی چرانے آئے


پھر فضا اس کے بدن سی مہکی
پھر بہاروں کے زمانے آئے