آپ بھی اس حسن کو اب پھول کہئے
آپ بھی اس حسن کو اب پھول کہئے
دیکھیے نازک بدن سب پھول کہئے
لگتی ہے قوس قزح عارض پہ شبنم
برگ گل جیسے ہیں وہ لب پھول کہئے
پھول سے ہی ہوتی ہے تمثیل اس کی
رشک کرتا ہے چمن جب پھول کہئے
بات میری آپ اب بھی جو نہ مانے
تتلی جب چومے اسے تب پھول کہئے
رات رانی بن وہ آئے خواب میں پھر
مہکی ان سانسوں کو ہر شب پھول کہئے
ہاتھ میں اس کے ازلؔ نے دے دیا گل
فیصلہ کریے کسے اب پھول کہئے