آئینہ پیش آئینہ

ایک وجدان کے برگد کے گھنے پیڑ تلے
ایک پل موند کے آنکھیں جو سمیٹا خود کو
دامن وقت کی مانند وہ پل پھیل گیا
جسم اور جان زماں اور مکاں ایک ہوئے
خود چمکنے لگا تاریک حجاب
سات رنگوں میں وہ تاریکی بٹی
اور ان رنگوں کے دریاؤں سے
زہرہ ناہید ثریا کے مزامیر کا نغمہ اٹھا
بے کراں نور میں گھل مل گئے ساتوں دریا
تیزی ایسی کہ ہزاروں خورشید
ٹھنڈک ایسی کہ ہزاروں مہتاب
بے کراں نور کی تہ میں جب اتر کر کھلیں میری آنکھیں
تیرے آغوش میں رکھے ہوئے میں سر نظر آیا خود کو
بے کراں نور تری آنکھوں میں پایا میں نے
اور اس نور کی تہ میں خود کو