بیدارئ بےداری

یہ 1997 ء کی بات ہے، جب میں نے چین کی سر زمین پر بغرض تجارت  قدم رکھا کہ جہاں کے کنفیوشس Confucius کے سکھائے اور سدھائے ہوئے   بلغاء wisemen حكام نے مجاہد عظیم قتیبہ بن مسلم  کی یلغار اور فتوحات کو ڈرامائی لیکن دانائی و حکمت کے ساتھ روک کر متغير avert و مامون کر دیا اور قاصد کے بدست سپہ سالار افواج مسلم کو ایک ٹوکری چین کی مٹی کی تحفہ میں بھیجی اور معمولی تاوان یا خراج کہیئے پر صلح کر لی کہ مجاہدین نے مٹی کو نیک اور اطاعت کا شگون سمجھا کہ کون ارض وطن کہ جو مثل ماں کے ہے کسی کو اس طرح دے سکتا ہے ؟

 

اور پھر اس پڑاؤ یا آخری محاذ

city  canton سے  اسلامی فتوحات چین میں ہمیشہ کے لئے رک گئیں یا روک لی گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جب میرے پیارے نبیﷺ  نے بعثت سے قبل تجارت کی خاطر عرب کے میلوں اور سواحل  کی جوانب سفر فرمائے تو بقول ڈاکٹر حمید الدین ریسرچ سکالر،مملکت عمان کے جنوبی ساحل پر چینیوں سے متعامل interact  ہوئے اور اسی لئے بغرض علم  چین  جا کر حاصل کرنے کی تاکید فرمائی اس لئے نہیں کہ وہاں علم کے مراکز تھے بلکہ وہ بعید و دشوار گزار خطہ تمدن تھا۔ یعنی علم حاصل کرنے میں جتنی بھی صعوبت یا مشقت پیش آئے ،جھیلو۔

 

میرے سامنے اس شہر کہ اب جس کا نام Guang zhou  کا وہ پڑاؤ کا میدان تھا جہاں اصحاب جليله کی مٹی کی قبریں ہیں  احاطہ ترکستان اسلامی انقلاب سوشلزم سے قبل کے حکام نے بنا دیا ۔ دیار کی مضبوط لکڑی کا نقوش کہن سے وضع کیا گیا دروازہ اور چند صدیوں قبل کا طرز تعمیر و تحصين ،أقفال عجيبه سے ہم سب مسلمانوں کو پڑا ، تک رہا تھا ۔ ایک مقدس سکوت اور محترم آب و ہوا سے مملو ،یہ مختصر قبرستان داستاں ہائے عظمت کے قصے بغیر صدا کئے سناتا ہے۔ اس خامشی کی زبان صرف دل کے کان ہی سن سکیں۔

 

میرے ارد گرد حضور لحود (جمع لحد)، ہجوم الحاد ( اللہ کا شریک ماننے والے) ہے اور خوش قسمتی سے چند عرب اور یوروپین مسلم سیاح بھی آ پہنچتے ہیں۔  ایک ٹوٹی پھوٹی مسجد کا احاطہ محسوس ہوا تو میں نے بے اختیارانہ اذان دے ڈالی کہ وقت ظہر کا تھا  ایک نا معلوم اور بہ انداز شوکت و شکوہ۔  دس باره مسلمان الله وتعالى کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے کو مستعد و مفرح ہوئے ۔امامت راقم پر آثم  کے حصہ میں آئی اور وہ نماز جس کیفیات کی حامل تھی کہ جس کا مواد صحابہ کرام کی جلالت و بسالت کے باوصف اس پیغمبر اعظم کی جہد مسلسل اور کلمتہ اللہ ھی  علیا اور اس راہ پر جھیلے گئے صد ہزار مصائب  کی لمحہ بہ لمحہ تاریخ سے کشید ہوتا ہے۔

 

یہی کیفیات مجھے مسجد صہیل مالقہ، ہسپانیہ میں ،میدانِ جنگِ موتہ، اردن میں  اور دڑاور قلعہ ،پاکستان سے ملحق اصحاب نبئ محترمﷺ کے مزارات پر وارد ہوئیں ۔

 

ان جان نثاروں نے ان بے سرو سامان فدایان دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیوی بچوں بچیوں سے اتنی دور آ کر پہنچ کر جرات و عزیمت کی وہ تاریخ رقم کی کہ لوح و قلم کے دعوی دار حیرت سے آسمان تکتے ہیں۔

 

اور ہم نے نہ تو سیرت مصطفی کا مطالعہ کیا اور نہ ہی ان دیوانوں پروانوں کی حیات کے روز و شب کی زندگی کو غور سے دیکھا جو دن کو روزہ رکھ کر قتال کرتے رہے اور شب بیداریوں سے اللہ کریم سے پر نم وصال کرتے رہے اور نجانے کہاں کہاں پہنچ کر علم و عمل کی روشن مشعلیں آئیندہ نسلوں کے حوالے کر کے اب آرام کی نیند سو رہے ہیں۔

 

بنا کردند خوش رسمے بہ خاک و خون غلطيدن

خدا رحمت كند  ايں عاشقان پاک طینت را

 

ترجمہ :

کیا راہ و رسم وفا  خاک و خون میں لوٹ پوٹ ہو کر بنیاد بنا گئے ۔یا اللہ ایسے عاشقوں پر اپنی رحمت کی بارش برسا۔