زندگی

ذرے ذرے میں دواں روح و رواں پاتا ہوں میں
زندگی کو ایک بحر بیکراں پاتا ہوں میں
غنچہ غنچہ نطق پر آمادہ آتا ہے نظر
پتے پتے کی زباں کو نغمہ خواں پاتا ہوں میں
زندہ ہستی کی خبر دیتی ہے رفتار نفس
بوئے گل کو زندگی کا ترجماں پاتا ہوں میں
برق کی جنبش ہو یا باد صبا کا ہو خرام
زندگی کا ہر تموج میں نشاں پاتا ہوں میں
اس سے آگے بھی ہیں روحیں اڑتی پھرتی بے شمار
طائر سدرہ کا جس جا آشیاں پاتا ہوں میں
ہو چکی ہے حکمراں جس نخل پر باد خزاں
اس کی رگ رگ میں بہار بے خزاں پاتا ہوں میں
چار سو راہ سفر پر دوڑتی ہے جب نظر
زندگی کو کارواں در کارواں پاتا ہوں میں
جانے والوں کی تباہی کے نشانوں میں نہاں
آنے والی ہستیوں کی بستیاں پاتا ہوں میں
الغرض سمجھے ہو جن کو موت کی بربادیاں
زندگی کے انقلاب ان میں نہاں پاتا ہوں میں