زندگی دو گھڑی کی مستی ہے
زندگی دو گھڑی کی مستی ہے
موت تعبیر خواب ہستی ہے
ہر نفس صرف غم پرستی ہے
میری ہستی عجیب ہستی ہے
فصل گل ہے ہوا میں مستی ہے
آج کل لطف مے پرستی ہے
آسماں پر دماغ ہستی ہے
یہ بلندی نہیں ہے پستی ہے
یہ جوانی تری معاذ اللہ
لاکھ مستی کی ایک مستی ہے
تیرے کوچے سے بیٹھ کر اٹھنا
کسر شان وفا پرستی ہے
جنس داد وفا محبت میں
جان دے کر ملے تو سستی ہے
چشمک برق تابش شعلہ
دل کی ہستی بھی کوئی ہستی ہے
تم نے دل مسکرا کے چھین لیا
یہ ادا ہے کہ چیرہ دستی ہے
ہوں حقیقت شناس اگر آنکھیں
بت پرستی خدا پرستی ہے
دل ترے وصل کے لئے بیتاب
آنکھ دیدار کو ترستی ہے
بے خودی عشق کا ہے سرمایہ
حسن کی کائنات مستی ہے
دل میں گھٹتا رہے گا دل کا دھواں
یہ گھٹا کھل کے کب برستی ہے
چھیڑتا ہوں کسی ستم گر کو
کیا مذاق جفا پرستی ہے
جس کو ویرانہ کہتے ہیں ندرتؔ
وہ بھی وحشت زدوں کی بستی ہے