زرقا
تو کیا وہ جھوٹ تھا
تو نے جو اس لڑکی سے بولا تھا
میں تیری جھیل جیسی
نیلی آنکھوں پر غزل کے شعر لکھوں گا
میں تیری ریشمی زلفوں میں
اپنی نظم کے موتی پروؤں گا
میں تیری دودھیا رنگت کلائی میں
طلائی چوڑیوں ایسے
کھنکتے گیت پہنانے کا خواہاں ہوں
مجھے معلوم ہے فرصت نہیں ملتی
بہت سے اور موضوعات بھی
مانا ضروری ہیں
مگر اس سے کیا وعدہ
بھلا کیا کم ضروری ہے
تو ایسا کر
کوئی اپنی پرانی نظم اس کے نام کر دے
یا
غزل کے شعر میں رد و بدل کر کے
کسی صورت بھی اس کا تذکرہ کر دے
جو تیری شاعری کے آئنے کے سامنے
سنگھار کرنے بیٹھ جاتی ہے
نہیں
مجھ سے تو ایسا بھی نہیں ممکن
اسے میری سبھی نظمیں
سبھی غزلیں
زبانی یاد ہوتی ہیں
اسے تو میری وہ غزلیں بھی ازبر ہیں
جو میں نے
جا کے صدیوں بعد کہنی ہیں
میں ان یاقوت ہونٹوں پر
فقط
خاموشیاں ہی ثبت کرتا ہوں