زنجیر
ہسپتال نمبر ۱
لمبے بالوں میں سرخ ربن باندھنے والے درمیانے قد کے نوجوان کا جملہ سن کر ڈاکٹر کے الفاظ فضا کی سانس چیرتے ہوے گزر گئے۔ یوں لگا جیسے کوئی غصّے میں دھاڑا ہو:
’’آپ کیسے انسان ہیں۔ آپ کو ذرا بھی احساس نہیں ہے کہ آپ کا مریض کس تکلیف اور پریشانی میں ہے۔ بلکہ میں اسے اذیت کہوں تو زیادہ مناسب ہوگا اور آپ لوگ اسے مزید اذیت میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ شٹ‘‘۔
یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر وہاں سے چلا گیا۔ نوجوان سر جھکائے جواباً کچھ کہنے کے لیے جملہ سوچتا رہ گیا۔ چند ساعت کے بعد وہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتا ہوا روم نمبر 09 میں چلا گیا جہاں اس کے دادا بسترِ مرگ پر لیٹے ہوے تھے۔ اس نے ایک نظر اپنے دادا پر ڈالی۔ سانس کی ان دیکھی ڈوری مشینوں سے منسلک پلاسٹک کی ڈوریوں میں الجھائے بوڑھا شخص آنکھیں موندے ہر بات سے بے خبر لیٹا ہوا تھا۔
نوجوان نے جیب سے موبائل نکالا پھر انگوٹھا پھرتی سے ہندسوں پر چلنے لگا۔
’’ہیلو بھائی! ڈاکٹر نہیں مان رہا‘‘۔
مدھم آواز سماعت سے ٹکرائی تو ماتھے پر عمودی شکنیں نمودار ہوگئیں۔ وہ بولا:
’’کمال ہے۔ انہیں کیا پریشانی ہے۔ جبکہ اِنہوں نے جو تاریخ بتائی تھی، وہ ہوچکی ہے اور یہ ابھی تک ویٹ کررہی ہیں‘‘۔
دوسری طرف سے پھر کچھ کہا گیا، جس کے جواب میں نوجوان دوبارہ گویا ہوا:
’’چلو ابھی تو سارا دن باقی ہے۔ آپ وہاں اس ڈاکٹر کو راضی کریں، میں یہاں انہیں منع کرتاہوں اور یوں بھی دونوں مریض ہمارے ہیں۔ ہماری مرضی نہیں چلے گی تو بھلا پھر کس کی چلے گی‘‘۔
دوسری طرف سے پھر کچھ کہا گیا۔ نوجوان نے اپنی ڈیجیٹل گھڑی پر نگاہ ڈالتے ہوئے جواب دیا:
’’لازمی بات ہے۔ آج تاریخی دن ہے۔ جیسے جیسے وقت قریب آتا جائے گا۔ سڑکوں پر رش بڑھتا چلا جائے گا۔ آپ مجھ سے ٹچ میں رہنا۔ میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا۔ نہیں معلوم میری غیر موجودگی میں ڈاکٹر کیا کر بیٹھیں۔ ویسے ڈیڈی سیدھے یہیں آئیں گے۔ وہ جیسے ہی یہاں آئے میں انہیں چھوڑ کر آپ کی طرف آجاؤں گا‘‘۔
یہ کہتے ہوے نوجوان نے فون بند کرکے جیب میں رکھ لیا۔ اس نے دادا کو دیکھا جو بیڈ کے سہ طرفہ مشینوں سے بندھے ہوئے تاروں کے درمیان یوں لیٹے ہوے تھے جیسے سوئیٹر بنتے ہوئے بیک وقت مختلف رنگوں کے اونی گولے فرش پر لڑھکتے ہوئے آپس میں الجھ جائیں۔
ایک دن پہلے یہی نوجوان اپنے دادا کو ہسپتال کی ایمرجنسی میں تقریباً بے ہوشی کی حالت میں لایا تھا۔ ڈاکٹروں نے فوراً معائنہ شروع کردیا۔ فشار خون بلند تھا۔ کئی گھنٹوں کی دیکھ بھال اور مختلف طبی رپورٹوں کی روشنی میں ڈاکٹروں نے دماغ کی شریان پھٹ جانے سے دماغ کی موت واقع ہونے کا اعلان کردیا لیکن مریض کا دل مصنوعی تنفس کے ذریعے اب بھی دھڑک رہا تھا۔ نوجوان کی اجازت اور ڈاکٹر کے ایک اشارے سے دل کسی بھی وقت رُک سکتا تھا۔ بوڑھے شخص کی کیفیت دیکھتے ہوے ڈاکٹر نے نوجوان کو بلوایا اور پوچھا:
’’یہ آپ کے کون ہیں؟‘‘
’’میرے دادا ہیں‘‘۔
’’دیکھیئے میں آپ کو کلیئر پوزیشن بتانا چاہتا ہوں۔ برین ہیمرج کی وجہ سے دماغ میں خون بہت جم گیا ہے۔ان کا دماغ سنگل پرسنٹ بھی کام نہیں کررہا ۔ صرف سانس چل رہی ہے۔ سی ٹی اسکین کے مطابق آپریشن کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ اگر ہم بیگنگ بند کردیں، تو تھوڑی دیر میں دل بھی کام کرنا بند کردے گا۔ دین ہی ول بھی ایکسپائرڈ۔ آپ اپنے گھر والوں سے مشورہ کرلیں کہ کیا کرنا ہے‘‘۔
’’ڈاکٹر میں اپنے دادا کو زندہ دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔
’’جس طرح آپ سمجھ رہے ہیں، یہ زندہ تو ہیں، لیکن یہ کبھی نہ اٹھ سکیں گے، نہ بیٹھ سکیں گے، نہ چل سکیں گے اور نہ بات کرسکیں گے‘‘۔
نوجوان نے فوراً فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’ڈاکٹر آپ انہیں کل تک اسی طرح رکھ لیں۔ اس کے بعد ہم کوئی نہ کوئی فیصلہ کرلیں گے‘‘۔
’’ایمرجنسی میں ایسا ممکن نہیں ہے، اور میری معلومات کے مطابق یہاں کوئی بیڈ یا کمرا بھی خالی نہیں ہے‘‘۔
’’ڈاکٹر آپ انہیں یہیں کسی کونے میں پڑا رہنے دیں۔ کم از کم آپ کی نگرانی میں تو ہوں گے‘‘۔
’’آپ کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ آپ کے دادا اس وقت کس تکلیف میں ہیں‘‘۔
’’ڈاکٹر پلیز! انہیں صرف کل تک مصنوعی سانسوں پر زندہ رکھیں‘‘۔
تب ڈاکٹر نے غصہ میں کہا تھا:
’’آپ کیسے انسان ہیں، آپ کو ذرا بھی احساس نہیں کہ آپ کا مریض کس تکلیف اور پریشانی میں ہے، بلکہ میں اسے اذیت کہوں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اور آپ لوگ اسے مزید اذیت میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ شٹ‘‘۔
ہسپتال نمبر ۲
دراز قد مگر چھوٹے بالوں والے نوجوان کی بیوی ہسپتال کے بستر پر آرام سے لیٹی ہوئی تھی۔ چہرے پر پھیلا ہوا اطمینان گداز ، نرم اور ریشمی لمحات کی طرح تھا، جس میں درد کا دور دور تک شائبہ بھی نہ تھا۔ البتہ بیڈ کے سامنے والی دیوار سے ٹیک لگائے نوجوان کے چہرے پر بے چینی اور بے زاری کی تہ چڑھی ہوئی تھی۔ اس نے مریضہ سے پوچھا:
’’کچھ محسوس ہوا؟‘‘
مریضہ نے منہ بسورا اور کندھے اچکائے، اور پھر دونوں ہاتھ گردن کے نیچے رکھ لیے۔ نوجوان نے جھنجھلاہٹ سے کہا:
’’یہ ڈاکٹر ہماری سنتی کیوں نہیں ہے۔ چار مہینے پہلے اس نے خود ہمیں آج کی تاریخ بتائی تھی۔ اب کہتی ہے کہ انتظار کرنا پڑے گا۔ درد نہیں ہورہے ہیں، درد ہوں تو ڈرپ بھی لگائیں‘‘۔
’’صحیح تو کہہ رہی ہیں‘‘۔
’’کیا خاک صحیح کہہ رہی ہیں۔ اگر میں کوئی جلد بازی کررہا ہوں تو چلو مان بھی لیں کہ ہم غلطی کررہے ہیں۔ انہوں نے تو خود ہمیں الٹرا ساؤنڈ کے بعد یہ تاریخ بتادی تھی۔ اب ٹائم پورا ہوگیا ہے تو کوشش کریں ، ورنہ آپریٹ کردیں۔ لیکن وہ تو سن ہی نہیں رہی ہیں۔ کہتی ہیں جب کام ایزیلی ہوسکتا ہے تو آپریشن کی کیا ضرورت ہے‘‘۔نوجوان نے ایک لمحے کے توقف کے بعد مزید کہا : ’’مجھے لگتا ہے کہ تمہیں کچھ نہیں معلوم کہ درد کیسے ہوتے ہیں‘‘۔
’’ہاں ہاں ، اس سے پہلے میں نے بہت سے بچے پیدا کیے ہیں نا، جو مجھے معلوم ہوگا کہ درد کیسے ہوتے ہیں۔ آپ کی حرکتوں پر ڈاکٹر غصے بھی ہورہی تھی اور ہنس بھی رہی تھی۔ کہنے لگیں، مانتی ہوں کہ پہلے بچے پر آدمی بہت زیادہ ایکسائٹڈ ہوتا ہے، لیکن ایسا بھی کیا کہ خود بچوں والی حرکتیں شروع کردے‘‘۔
نوجوان نے سرجھٹکتے ہوے فیصلہ کن انداز میں کہا:
’’کچھ بھی ہو بچہ آج ہی ہونا چاہیے‘‘۔
شہر کے معروف میٹرنٹی ہوم کے ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں دونوں میاں بیوی بیزاری سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ پہلی اولاد والی ایکسائٹمنٹ کا نام و نشان تک نہ تھا۔ دروازے پر دستک نے دونوں کو چونکا دیا۔ نوجوان نے جا کر دیکھا، نرس ہاتھ میں ٹرے اٹھائے داخل ہوئی۔
’’پلیز آپ باہر چلے جائیں‘‘۔
نوجوان نے بیوی پر اچٹتی نظر ڈالی اور لمبے لمبے قدموں سے برآمدے کے آخری سرے تک چلا گیا۔ جہاں سے دائیں اور بائیں مڑا جاسکتا تھا۔ وہ دائیں مڑ گیا۔ کچھ فاصلے پر ہسپتال کا مین گیٹ تھا ۔اونچے چبوترے پر سے گیٹ کی طرف دیکھنے لگا۔ سڑک پر گہما گہمی معمول سے زیادہ تھی۔ آج کے دن کی اہمیت کے پیش نظر دکانوں او ربڑی بڑی عمارتوں پر ایک خاص قسم کی جھنڈیاں اور برقی قمقمے لٹکے ہوئے تھے۔ چوراہے پر ایک بہت بڑی اسکرین لگی ہوئی تھی۔ جس پر سیٹلائٹ کے ذریعے دنیا کے کسی دور افتادہ مقام پر ڈوبتے سورج کا دلکش منظر لائیو ٹیلی کاسٹ ہورہا تھا۔ سرخ گولا ایک دھندلی متوازی لکیر کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا۔ نوجوان نے گھڑی دیکھی۔ ڈوبتے سورج اور اپنی گھڑی کے ہندسوں کے درمیانی فرق کو جانچا اور پھر ٹہلتا ہوا واپس کمرے میں چلا آیا۔ نرس جاچکی تھی۔ اس کی بیوی بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔ اب اس کی کلائی میں پلاسٹک کی نالی سے منسلک سوئی پیوست تھی اور قریب ہی اسٹینڈ پر ڈرپ لٹکی ہوئی تھی۔
’’آریو فیلنگ سم تھنگ؟‘‘
’’یس‘‘
’’دیٹس گڈ! یہ ہوئی نا بات‘‘۔
نوجوان خوشی سے یوں لہرا گیا جیسے امید کے جلتے بجھتے چراغ کے پاس سے مایوسی کی ہوائیں راستہ بدل کر گزر گئی ہوں۔ کیمیائی پانی نوجوان کی بیوی کی رگوں میں اترنے لگا۔ سوکھی لکڑیوں کے نیچے جلتا ہوا کوئلہ رکھ دیا گیا تھا۔ دبے ہوے درد یوں بڑھنے لگے جیسے اس کیمیائی پانی میں درد کا تعویذ گھول دیا گیا ہو۔ تھوڑی دیر بعد ڈیوٹی ڈاکٹر نے آکر معائنہ کیا اور نرس کو چند ہدایات دے کر چلی گئی۔
جلتے چولہے پر رکھے پانی میں رفتہ رفتہ بڑھنے والے ابال کی طرح نوجوان کی بیوی کے درد بھی بڑھتے جارہے تھے۔ نوجوان گھڑی پر بار بار نگاہ ڈال رہا تھا۔ وہ دردوں کا درمیانی وقفہ نوٹ کررہا تھا۔ وہ کسی مخصوص وقت سے پہلے بچے کی ولادت چاہتا تھا۔ جو کہ اب ممکن نظر آرہی تھی۔
نوجوان موبائل پر اپنے بھائی کو خوش خبری سنانے لگا۔ دوسری طرف سے بھی خوش خبری سننے کو ملی۔ لمبے بالوں والے نوجوان نے بتایا کہ ہسپتال میں کمرا مل گیا ہے۔ اور ڈاکٹر دادا کو بیگنگ پر زندہ رکنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ صرف ایک دن کے لیے ٹل جانے والی موت پر دونوں خوش تھے۔
ہسپتال نمبر ۳
بردبار دکھائی دینے والا مسیحا، نرس اور جونیئر ڈاکٹر کو کچھ سمجھانے کے بعد تیزی سے ان تین نوجوانوں کے قریب آیا جو ایمرجنسی کے بستر پر پڑے ادھیڑ عمر شخص کو سڑک سے اٹھا کر یہاں لائے تھے۔
’’آپ لوگ انہیں جانتے ہیں؟‘‘
نوجوانوں نے نفی میں گردن ہلائی۔
’’ہوں! ان کے پرس میں ان کے گھر کا نمبر موجود ہے، مگر کوئی اٹینڈ نہیں کررہا۔ مریض کا فوری آپریشن کرنا پڑے گا۔ آپ کو کچھ پیپرز سائن کرنا ہوں گے۔ دو کے چہروں پر بے چینی پھیل گئی۔ لیکن تیسرے نوجوان نے جو شکل سے ذرا دلیر دکھائی دیتا تھا، نے آگے بڑھ کر کہا:
’’مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لائیے میں سائن کردیتا ہوں‘‘۔
یہ کہتے ہوئے وہ ڈاکٹر کے اشارے کی سمت بڑھ گیا۔ کاؤنٹر پر موجود شخص نے ایک فارم نوجوان کی طرف سرکادیا۔ نوجوان نے فارم کو ایک نظر دیکھا اور پوچھا:
’’کہاں سائن کرنا ہیں؟‘‘
کاؤنٹر والے شخص نے نشاندہی کرتے ہوئے پوچھا:
’’یہ آپ کے کون ہیں اور انہیں کیا ہوا تھا؟‘‘
نوجوان نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا:
’’محض اجنبی! یہ سڑک پر جلوس کے درمیان میں سے نکلنے کی کوشش کررہے تھے۔ وہاں ایک منچلا اپنی ٹریل کو ایک پہیے پر گھمارہا تھا، جمپنگ کررہا تھا، بس ایک جمپ ان بیلنس ہوگئی۔ٹریل کا پہیہ سائڈ گلاس توڑتا ہوا ان کے سینے سے ٹکراگیا۔ سڈنلی ہی واز ان کانشیئس۔ ہم نے سوچا آج کے دن اس شخص کو مرنا نہیں چاہیے۔ بس یہ سوچ کر اسے یہاں لے آئے۔ آئی ہیو نیور سین ہم بفور ٹوڈے‘‘۔
اسی دوران وارڈ بوائے اسٹریچر پر لیٹے ادھیڑ عمر شخص کو آپریشن تھیٹر میں لے گئے۔ سرخ بتی روشن ہوگئی۔ ہسپتال کی دیواروں پر سوگواریت پہلے ہی سے پھیلی ہوئی تھی ۔اس کے برعکس شہر کی بے ہنگم سڑکوں پر سوگواریت کاذرا بھی نام و نشان نہ تھا۔ ہر طرف گہما گہمی اور زندگی سے بھرپور شب کا احساس پھیلا ہوا تھا۔ نوجوانوں کی ٹولیاں پیدل، کاروں اور موٹر سائیکلوں پرسوار شہر کی سڑکوں پر جوش اور سرشاری سے بھرپور نعرے لگاتی پھررہی تھیں۔ شہر میں جگہ جگہ اسکرین لگے ہوئے تھے ۔ جن پر دنیا بھر سے دلچسپ، معلوماتی اور مشہور شخصیات ان پروگراموں میں شریک دکھائی دے رہی تھیں۔ نت نئے ڈیزائن کے رنگا رنگ خوبصورت پیراہن جو کہ خصوصاً آج کے دن کے لیے بنوائے گئے تھے، پہنے ہوئے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی ٹولیاں اس دن کو یادگار بنارہی تھیں۔
آج کا دن ہی ایسا تھا۔ آج ایک تاریخ رقم ہونے والی تھی۔ ایک ایسی تاریخ جسے دوبارہ رقم ہونے کے لیے ایک ہزار سال انتظار کرنا پڑتا۔ ایک ہزار سال۔۔۔ کسی بھی ذی روح کا جینا ناممکن تھا۔ لہذا جو بھی اس وقت زندہ تھا وہ چند گھنٹوں کے بعد تاریخ میں درج ہونے والا تھا۔
بیسویں صدی یعنی دو ہزار سال کی آج آخری شب تھی۔ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۰ء کو گزرنے میں صرف چند گھنٹے رہ گئے تھے۔ یوں تو برسوں سے ۳۱ دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی شب لوگ ہمیشہ ہی سے کسی نہ کسی انداز میں مناتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن آج کی تاریخ کا انوکھا پن لوگوں کو جذباتی بنارہا تھا۔ یہ ایک سال سے دوسرے سال میں جانے کا معاملہ نہیں تھا، اور نہ ہی ایک صدی سے دوسری صدی میں داخل ہونے کی بات تھی۔ بلکہ ایک ہزار سال سے دوسرے ہزار سال میں داخل ہونے کی سرخوشی تھی۔ جب سے عام آدمی کو شعوری طور پر یہ احساس ہوا تھا، وہ بھی اس یادگار اور انوکھے لمحے کو گزارنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پوری دنیا میں عجیب سی فضا بن گئی تھی۔ لوگ مختلف طریقوں سے انجوائے کرنا چاہتے تھے۔ ہر طبقہ اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے صدیوں کے درمیان پھنسے ہوے اس ایک پل سے گزرنا چاہتا تھا۔ زندہ۔۔۔ سانس لیتے ہوے۔
جب لمبے بالوں میں سرخ ربن باندھنے والے درمیانے قد کے نوجوان اور اس کے چھوٹے بالوں والے بڑے بھائی کے گھر میں جہاں بیک وقت دو ایسے اتفاقات نے جنم لیا جو کہ صدیوں کے درمیان پھنسے ہوئے اس پل کو یادگار بناسکتے تھے۔ وہیں ایک اتفاقی حادثہ بھی ہوگیا۔
صدی کے آخری برس کے پہلے مہینے میں ماں کے اچانک انتقال پر گھر میں کسی عورت کی کمی محسوس کرتے ہوئے جب بڑے بھائی کی شادی ہوئی تو صرف چند ماہ کے بعد ہی قدرت نے ان کے گھرانے میں ایک اور فرد کے اضافے کی امید پیدا کردی۔حسنِ اتفاق سے الٹرا ساؤنڈ کی رپورٹ کے بعد ڈاکٹر نے بچے کی پیدائش کی تاریخ ۳۱ دسمبر بتائی جو کہ صدی کا آخری دن تھا۔ تب لمبے بالوں والے نوجوان نے اپنے بڑے بھائی سے کہا:
’’ویلڈن! اٹ مینز ہمارے خاندان کی چار زندہ نسلیں ایک صدی سے دوسری صدی میں سفر کریں گی۔ رئیلی، یہ تو تاریخی واقعہ ہوگا۔ ہمارے دادا، ہمارے ڈیڈی، ہم اور پھر ہمارا چھوٹا مہمان۔ مائے برادر اینڈ بھابی، یو آر سو گریٹ‘‘۔
نوجوان اور اس کی بیوی یہ سن کر کہ اگر بچے کی ولادت ۳۱ دسمبر کو ہوجاتی ہے تو ان کا خاندان چار پشتوں پر مشتمل ہوجائے گا، ان کا چہرہ کھل اٹھا۔ لیکن دوسرے لمحے ہی نوجوان نے سنجیدگی سے کہا:
’’اگر ان چند مہینوں میں کچھ ہوگیا تو پھر؟ دادا بوڑھے ہیں اور کمزور بھی اب تو وہ کبھی کبھی آدھی سے زیادہ نماز بیٹھ کر ادا کرتے ہیں‘‘۔
’’میرا خیال ہے ہم ڈاکٹر کے مشورے سے دادا کو بہتر غذا کا استعمال شروع کرواسکتے ہیں‘‘۔دوسرے نوجوان نے جواب دیا:
’’غذا، سفر اور نہ جانے کیا کیا احتیاطیں شروع کردی گئیں۔ دادا اور ڈیڈی کو بتائے بغیر انہوں نے کھانے میں کئی تبدیلیاں کردیں۔ لیکن ان تمام تبدیلیوں اور احتیاطوں کے باوجود برس کے اخیر دنوں میں جب ایکسائٹمنٹ کا لمحہ چند قدم کے فاصلے پر تھا، مذہب کے نام پر پلنے والی جماعتوں میں سے ایک جماعت کے کارندوں نے اس محلے کی مسجد پر دوران نماز امام اور مقتدیوں پر الجہاد الجہاد کا نعرہ لگاتے ہوئے گولیاں برسادیں،تب تیسری صف میں کھڑے ہوئے دادا خوف سے وہیں ڈھیر ہو گئے۔ چند قدم کے فاصلے پر کھڑی پولیس موبائل نے لمحوں کا فاصلہ صدیوں میں طے کیا۔ اس وقت تک سات زخمیوں میں سے تین بشمول امام ، زرد پھولوں والی صف مسجد کو سرخ کرتے ہوئے جان دے چکے، اور گولیاں برسانے والے ہاتھ غائب ہوچکے تھے۔ تب دادا خوف اور دہشت اوڑھے گھر چلے آئے۔ مگر اللہ اکبر کی آواز پر رکوع میں جاتے ہوئے اچانک سامنے والی کھڑکیوں سے آنے والی گولیوں کی آوازوں کا لمحہ دادا کے دماغ کے اندر یاد کی شریانوں میں کچھ ایسی شدت سے گھسا کہ شریان پھٹ گئی۔
جب ڈاکٹروں نے دادا کے دماغ کی موت کا اعلان کرتے ہوے بتایا کہ مصنوعی تنفس سے دل ابھی زندہ ہے۔ یعنی مریض کی کلی موت ابھی واقع نہیں ہوئی ہے تو دونوں نوجوانوں نے آپس میں فیصلہ کیا کہ دادا کو ابھی دو روز اور زندہ رہنا چاہیے۔ کم از کم دو روز۔۔۔
دوسری طرف چھوٹے بالوں والا، دراز قد نوجوان ۳۱ دسمبر کو صبح ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق دردزہ کی علامتوں کے بغیر اپنی بیوی کو لے کر ہسپتال پہنچ گیا۔ ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کے بعد کہا:
’’میری آخری لمحے تک کوشش ہوتی ہے کہ آپریٹ نہ کرنا پڑے، آئی ایم ویری مچ ٹو اوائڈاٹ۔ یہ ضروری نہیں کہ ہماری پرزیوم کی ہوئی ڈیٹ پر بچے کی ولادت ہوجائے۔ کبھی کبھی آگے پیچھے ہوجاتا ہے‘‘۔
’’آپ کوشش تو کریں گی نا؟‘‘
’’ایڈمٹ کرلیتے ہیں، پھر دیکھتے ہیں‘‘۔
تمام دن کے تکلیف دہ لمحات سے گزرنے کے بعد وہ مرحلہ آگیا جب دردزہ میں شدت آنے لگی۔ دردزہ کا درمیانی وقفہ کم ہونے لگا تو مریضہ کو لیبر روم لے جایا گیا۔ رات دس بج کر ۳۰ منٹ پر لیبر روم کا دروازہ کھلا۔ سفید لباس میں ملبوس نرس نے باہر آکر نوجوان کو خوشخبری سنائی:
’’بیٹا ہوا ہے‘‘۔
نوجوان خوشی سے جھوم گیا۔ اس نے فوراً موبائل پر چھوٹے بھائی سے رابطہ کیا۔
’’ہیلو برادر۱ یو آر بی کم انکل ناؤ‘‘۔
دوسری طرف سے یقیناً مبارک باد دی گئی تھی۔
’’تھینک یو بردار! تمہیں بھی بھتیجا مبارک ہو۔ ڈیڈی کو بتادینا، وہ دادا بن گئے ہیں‘‘۔
’’انہیں تو تمہارے پاس ہی ہونا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ کہیں رش میں پھنس گئے ہوں۔ دادا کے ان کا نشئیس ہونے کے بعد میں چاہتا ہوں کہ ڈیڈی میرے بیٹے کے کان میں اذان دیں‘‘۔
پھر نوجوان نے گھڑی دیکھتے ہوے مزید کہا:
’’مور کانگریچیولیشن ! ناؤ وی آر انٹیرنگ ان ٹو نیکسٹ سنچری اینڈ تھرڈ ملینیم وتھ اور فورتھ جنریشن‘‘۔
لیکن نوجوان کو کیا معلوم تھا کہ اگلی صدی میں داخل ہونے کے لیے ابھی ایک گھنٹہ باقی ہے۔ اور اس ایک گھنٹے میں ہسپتال نمبر ۳ کی آپریشن ٹیبل پر پڑا ہوا شدید زخمی ادھیڑ عمر باپ اپنی زندگی کی آخری سانسوں کے کس قدر قریب سے گزررہا ہے۔۔۔ مسیحا اپنی پوری کوشش کررہا ہے۔۔۔ نہیں معلوم کہ رشتوں کی زنجیر کی کڑیاں آپس میں جڑی بھی رہتی ہیں کہ نہیں۔
(۱۹۹۹)