زمیں کی وسعتوں سے آسماں تک

زمیں کی وسعتوں سے آسماں تک
کہانی اپنی جا پہنچی کہاں تک


لگی تھی آگ جو صحن چمن میں
وہ آ پہنچی ہمارے آشیاں تک


بتا دے ہم کو اتنا راہبر اب
بھٹکنا ہے ہمیں آخر کہاں تک


کسی کے حسن کا وہ رعب توبہ
شکایت رہ گئی آ کر زباں تک


چلی تھی بات میری داستاں سے
وہ آ پہنچی تمہاری داستاں تک


جو گزری ہے ہماری زندگی پر
نہ جائے وہ ہمارے کارواں تک


حدیث زندگی جانبازؔ چھیڑو
حدیث شعلہ و شبنم کہاں تک