زخمی
ڈاکٹر سالے کی ایسی کی تیسی‘‘ زخمی نے کچکچا کر دل ہی دل میں کہا ’’حرامی کہتا ہے یہ پولس کیس ہے۔۔ پہلے رپورٹ درج کی جائے گی، پھر جَکھَم کا علاج ہو گا۔۔ پولس والا چائے پینے گیا ہوا ہے۔۔ ایک گھنٹے سے جیادہ کا بکھَٹ(وقت) گُجر چکا ہے۔۔ اگر تھوڑی دیر یہ کھون اسی طرح اور بہتا رہا تو میرا تو ہو گیا کام!‘‘
اس کے سر سے بہت تیزی سے تو نہیں، لیکن بہہ رہا تھا خون۔ شاید اس کے سر پر آنے والا زخم کاری نہیں تھا۔ وہ ایک بنچ پر بیٹھا ہوا تھا، اس کی آنکھیں بند تھیں، چہرہ زرد ہو گیا تھا، یا شاید مزید زرد ہو گیا تھا۔
’’بھلا بتاؤ۔۔ مجھ جیسے گریب آدمی کو بھی لوگ لوٹنے لگے! بڑی مسکل سے تو تیس روپیے کمائے تھے۔۔ بچے بہت بھوکے تھے۔۔ ان کی روٹی کے لیے آٹا کھریدنے جا رہا تھا۔۔ سنسان گلی میں پہلے سر پہ ڈنڈے سے وار کیا، پھر جیب سے تیس روپیے نکال کر گائب ہو گئے۔ دس دس روپیے آئے ہوں گے ان تینوں کے حصے میں۔۔ دس روپیے میں تو آج کل ایک کلو آلو یا ایک کلو آٹا بھی نہیں ملتا۔۔ سولہ روپیے کلو بک رہے ہیں آلو، اور سولہ ہی روپیے کلو بک رہا ہے آٹا۔۔ کیا کیا ہو گا یا کیا کر رہے ہوں گے وہ تینوں دس دس روپیوں میں؟ انسان کو ہو کیا گیا ہے؟ کوئی اگر کہیں بھوکے بچوں کے باپ کا سر دس روپیوں کے لیے پھاڑ دیتا ہے تو کہیں کوئی ڈاکٹر کسی پھٹے ہوئے سر کی مرہم پٹی کا پرچہ بنانے سے اس لیے انکار کر دیتا ہے کہ فوجداری کے معاملے میں علاج سے پہلے رپورٹ جَروری ہے؛ رپورٹ لکھے جانے سے پہلے جکھمی مرتا ہے تو مر جائے۔۔ کیوں پھڑوایا تھا سر؟ سر پہ آنے والے جَکھَم کی مرہم پٹی تو تبھی ہو گی جب پولس کانسٹیبل رپورٹ درج کر لے گا۔۔ اور کانسٹیبل کہیں بیٹھا چائے پی رہا ہے، جب آئے گا تب رپورٹ لکھی جائے گی۔۔ کانسٹیبل کی چائے کے آگے تمہاری جندگی کا کوئی مول نہیں، کوئی ارتھ نہیں۔۔ مرنا ہے تو مرو۔۔ کھون بہتا ہے تو بہے، گھاؤ میں درد ہوتا ہے تو ہو۔۔ آدمی کتنا جانور ہو گیا ہے! جانور بھی، گدھ بھی۔۔ ایک ہی سمئے میں آدم کھور بھی، مردہ کھور بھی!‘‘
’’ارے تم۔۔ اندر آنے کا۔۔ کھون بہوت نکل رہا ہے۔۔ میں پٹی تو نہیں کرسکتی، پر ایک مرہم لگا دے گی۔۔ کھون نکلنا بند ہو جائے گا۔۔ پٹی تو جب رپورٹ لیکھ لیا جائے گا اور ڈاکٹر پرچہ بنا دے گا، تب ہو گا۔‘‘
’’زخمی نے سر اٹھا کر دیکھا؛ دُبلی پتلی، سانولی سی، معمولی صورت شکل والی ایک کیرالی نرس اس کے سامنے کھڑی تھی اور کوشش کر رہی تھی کہ اس کے چہرے سے کسی بھی قسم کے، یعنی رحم، ترس یا ہمدردی کے جذبات عیاں نہ ہونے پائیں۔ زخمی اٹھ کر چپ چاپ نرس کے ساتھ ڈریسنگ روم میں آگیا۔ ’’کچھ بھی ہو، دنیا ابھی انسانوں سے کھالی نہیں ہوئی ہے۔۔ یہ لڑکی کتنی انسان ہے!‘‘ اس نے سوچا اور نرس کا اشارہ پا کر اسٹول پر بیٹھ گیا۔ نرس نے روئی میں اسپرٹ لے کر زخمی کے سر کا زخم صاف کیا اور ایک مرہم لگا دیا۔ خون بہنا بند ہو گیا۔
زخمی نے بڑی ممنونیت کے ساتھ ’’سکریہ‘‘ کہا، اس کا نام پوچھا، سرجھکا کر کمرے سے باہر آ کر پھر بنچ پر بیٹھ گیا اور اس مہربان نرس کے بارے میں سوچنے لگا۔ نرس کا نام گریسی گلکرسٹ تھا۔
ایک گھنٹے کے بعد کانسٹیبل چائے پی کر واپس آیا اور اپنی کرسی پر بیٹھتے بیٹھتے اس کی نظر زخمی پر پڑی؛ فی الفور اس کا موڈ خراب ہو گیا۔ پھٹے سر کا مطلب ہے پولس کیس۔
اس نے زخمی سے پوچھا ’’یہ کیا ہے اور کیوں ہے؟‘‘
زخمی نے بتایا اور کانسٹیبل کا موڈ مزید خراب ہو گیا۔ اب رپورٹ لکھنا پڑے گی! وہ غرّایا ’’ابے تو اس گلی میں گیا ہی کیوں جو سنسان تھی؟‘‘
’’اب مجھے کیا پتہ تھا کہ اس گلی میں میرا سر پھاڑ دیا جائے گا اور تیس روپیے لوٹ لیے جائیں گے حُجور؟‘‘ زخمی بظاہر بڑی بے چارگی سے بولا۔
’’ہاں اور کیا! تو اتنا ہی تو بھولا ہے کہ تجھے یہ بھی پتہ نہیں کہ سنسان گلی میں لوگ لٹ جاتے ہیں۔ سالے، کھُد پہلے لُٹو، پھر سر پھڑوا کر اسپتال آ جاؤ، یہاں کانسٹیبل تو تمہارے باپ کا نوکر بیٹھا ہی ہے تمہاری رپورٹ لکھنے کے لیے۔ نام بول۔‘‘ کانسٹیبل اپنے پورے رنگ میں تھا۔
رپورٹ لکھے جانے کے بعد ڈاکٹر نے پرچہ بنایا اور پرچہ لے کر زخمی ایک بار پھر ڈریسنگ روم میں گیا، تاکہ باقاعدہ مرہم پٹی کرواسکے۔
گریسی گلکرسٹ کی ڈیوٹی شاید ختم ہو گئی تھی۔ دوسری نرس ڈیوٹی پر تھی۔
دوسرے دن زخمی اپنی پٹی بدلوانے پھر ہسپتال پہنچا اور تب اسے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر کے حکم اور نسخے کے بغیر ایک زخمی کے زخم پر مرہم لگانے کے جرم میں گریسی گلکرسٹ کو معطل کر دیا گیا تھا۔ زخمی سوچنے لگا ’’یہ سب تو بہت برا ہوا تھا۔۔ برا یہ نہیں ہوا تھا کہ گریسی گلکرسٹ کو معطل کر دیا گیا تھا۔۔ وہ تو بحال ہو ہی جائے گی؛ نوکری سے نکال بھی دی گئی تو کہیں کسی پرائیویٹ اسپتال یا کسی نرسنگ ہوم میں پھر مُلاجمت مل جائے گی۔ برا تو یہ ہوا تھا کہ ایک مہربان کو مہربانی کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ اب کیا وہ کبھی رپورٹ لکھے جانے اور ڈاکٹر کے پرچہ بنانے سے پہلے کسی جکھمی کے گھاؤ پر مرہم لگائے گی؟ انسان کے انسانیت کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔۔ سالے حرامی!‘‘