زخم اپنا سا کام کر نہ جائے
زخم اپنا سا کام کر نہ جائے
پھر درد کی لے بکھر نہ جائے
جب اس کی نگاہ اس طرف ہے
کیوں میری نظر ادھر نہ جائے
ہے فصل جنوں کی آمد آمد
پیڑوں کا لباس اتر نہ جائے
اب مجھ سے نہ مل کہ زہر میرا
نس نس میں ترے اتر نہ جائے
مدت سے ملا نہیں ہوں اس سے
وہ میرے بغیر مر نہ جائے
ایسا تو نہیں کہ لوٹ جاؤں
اب آگے جو ہم سفر نہ جائے