زبان
کسی بزرگ سے اک روز میں نے یہ پوچھا
بھلا درستیٔ ایمان کا ہے کیا نسخہ
کہا بزرگ نے اپنی زبان اچھی رکھ
گرہ میں باندھ کے میری یہ بات سچی رکھ
زباں درست تو پھر دل درست ہے تیرا
ہو دل درست تو ایمان پختہ تر ہوگا
زباں اہم ہے بدن کے تمام اعضا میں
ملا زبان کو اعلیٰ مقام اعضا میں
زباں سنبھال کے رکھتا ہے ہر کوئی تائب
زبان جسم میں ہوتی ہے عقل کی نائب
زبان دل کی جو باتیں بیان کرتی ہے
تو دل میں بات زباں کی ہر اک اترتی ہے
زبان اچھی اگر ہے تو دل بھی روشن ہے
زباں خراب تو دل ظلمتوں کا مدفن ہے
زباں سے بات جس انداز کی نکلتی ہے
اسی لحاظ سے دل کی ادا بدلتی ہے
تمام جسم کو گر مملکت کہا جائے
تو بات سب کی سمجھ میں یہ صاف آ جائے
حکومت آنکھ کی محدود ہے بصارت تک
تو کان کی ہے حکومت محض سماعت تک
ہر ایک عضو نے پایا ہے ایک ہی خطہ
زباں کے تابع مگر مملکت کا ہر حصہ
زباں وقار کو انسان کے بڑھاتی ہے
یہی زبان مگر ساکھ بھی گھٹاتی ہے
زبان اچھی ہے تیری تو پھر یہ رحمت ہے
زباں خراب ہے تیری تو پھر یہ زحمت ہے