یوں تصور میں کھلے گل ہیں تیری بات کے بعد

یوں تصور میں کھلے گل ہیں تیری بات کے بعد
جیسے گلشن میں نکھر جائے فضا رات کے بعد


بے قراری نہ گئی اور نہ مٹی دل کی خلش
نہ ملاقات سے پہلے نہ ملاقات کے بعد


غم دنیا بھی نہیں خواہش عقبیٰ بھی نہیں
کیا رہا دل میں مرے عشق کے جذبات کے بعد


شام رنگیں ہیں سحر میں ہے نہ وہ کیف و سرور
تیری صحبت میں وہ گزرے ہوئے لمحات کے بعد


رہ رو شوق ہی کیا جو سر منزل نہ لٹا
بازیٔ عشق میں آتا ہے مزا مات کے بعد


رو بہ رو تیرے کوئی بات بنائے نہ بنے
کس طرح بات بنے میری تری بات کے بعد


مے میں مستی ہے نہ مے خاروں میں وہ جوش و خروش
مے کدہ سونا ہوا رند خرابات کے بعد


بادۂ حسن سے سرشار رہے روز حبیبؔ
کیف ہر کیف ہے ہر رات میں ہر رات کے بعد