یوں میری دعاؤں میں صدا کانپ رہی ہے
یوں میری دعاؤں میں صدا کانپ رہی ہے
جیسے کہ ہواؤں میں ردا کانپ رہی ہے
ہے تیرے کرم سے ہی خطا کار کی بخشش
ہر سانس مری رب علا کانپ رہی ہے
دھوئی تھی زباں گرچہ مے لالہ سے میں نے
لیتے ہوئے کیوں نام ترا کانپ رہی ہے
کہنے کو تجھے دیکھ ہی لیتی ہیں نگاہیں
پھر طور پہ کیوں طبع صفا کانپ رہی ہے
گزری ہے نسیم سحری آج یہ کیسے
ہر شاخ تہ باد صبا کانپ رہی ہے
آدم کی دعا ہوگی یہ مقبول سنا تھا
پھر پیش خدا کس کی نوا کانپ رہی ہے