ی تو گلہ نہیں ہے کہ دل کو سکوں نہیں
ی تو گلہ نہیں ہے کہ دل کو سکوں نہیں
لیکن سکوں تو چارۂ درد دروں نہیں
آنکھوں میں بیقرار کوئی موج خوں نہیں
شاید ابھی بہار پہ زخم دروں نہیں
ہر سانس دے رہا تھا بظاہر پیام زیست
لیکن مرا گمان یہی ہے کہ ہوں نہیں
ملتا ہے دل کو تیری گلی میں سکون سا
کیا اس زمین پر فلک نیلگوں نہیں
اے عقل ساتھ رہ کہ پڑے گا تجھی سے کام
راہ طلب کی منزل آخر جنوں نہیں
اب تک رفو گلوں کے گریباں نہ ہو سکے
اس گلستاں میں پرسش اہل جنوں نہیں
مجھ کو نثارؔ زعم نظر نے کیا خراب
جلوے تو ہر قدم پہ پکارے کہ یوں نہیں