یہ کس لئے ہے تو اتنا اداس دروازے
یہ کس لئے ہے تو اتنا اداس دروازے
پہن لیا ہے جو کالا لباس دروازے
تو شام رنگ ہوا جا رہا ہے صبح سے کیوں
جھلکتی ہے تری صورت سے یاس دروازے
نہارتے ہو یہ کس کس کو نیم وا ہو کر
پرائے دیس میں کیسی یہ آس دروازے
حنائی ہاتھ کے وہ لمس چھن گئے جن سے
بنے ہوئے ہیں سراپا سپاس دروازے
مکیں مکاں میں نہ ہوگا تو پھر کہاں ہوگا
یہیں کہیں ہے ترے آس پاس دروازے
لباس اور ہے لیکن میں کوئی اور نہیں
مجھے تو بھول گیا روشناس دروازے
مجھے بھی حیرت و حسرتؔ نے بت بنا ڈالا
تجھے بھی زندگی آئی نہ راس دروازے