یہ جو ترتیب سے بنا ہوا میں
یہ جو ترتیب سے بنا ہوا میں
ایک مدت میں راستہ ہوا میں
لوگ آتے تھے دیکھنے مجھ کو
ایسے پتھر سے آئینہ ہوا میں
کیا خبر کب نظر میں آ جاؤں
شور میں ایک بولتا ہوا میں
اب تو پہچان میں نہیں آتا
تیری دیوار سے جڑا ہوا میں
شہر کے بیچ آ گیا اک دن
صحن کے بیچ دوڑتا ہوا میں
آپ بھی اپنا شوق فرمائیں
جانے کتنوں کا ہوں ڈسا ہوا میں
شام ہوتی ہے تو نکلتا ہوں
اس کی پلکوں سے چیختا ہوا میں