یہ بھی اصرار کوئی روزن در باز نہ ہو

یہ بھی اصرار کوئی روزن در باز نہ ہو
سانس لیتے رہو پر سانس کی آواز نہ ہو


یک بیک عالم اظہار میں سناٹے کی گونج
آنے والے کسی طوفان کی غماز نہ ہو


شعر و فن آذر حاضر کے تراشیدہ صنم
تہمت لوح و قلم توسن پرواز نہ ہو


پھر تری یاد سے روشن ہوا کاشانۂ دل
وسعت کون و مکاں جلوہ گہہ ناز نہ ہو


وقت کے جبر سے کب کار جنوں خیز رکا
کوشش سنگ زنی نقطۂ آغاز نہ ہو