یہ آنکھیں کھلیں جب سے کیا کیا نہ دیکھا

یہ آنکھیں کھلیں جب سے کیا کیا نہ دیکھا
مگر دیکھنا جس کو چاہا نہ دیکھا


یہ تنہائ دشت غربت کی حد ہے
کبھی دھوپ میں اپنا سایا نہ دیکھا


بتوں کی جگہ اور عاشق کے دل میں
یہی سنگ و شیشہ میں یارا نہ دیکھا


اگر دید سے کام ہی کچھ نہ نکلا
تو کیا فائدہ جیسے دیکھا نہ دیکھا


لہو سے بھری اپنی چٹکی تو دھوئی
مگر تم نے میرا کلیجا نہ دیکھا


برا مان جاتیں وہ بیمار آنکھیں
یہ اچھا ہوا تجھ کو اچھا نہ دیکھا


مری چشم پر آب اب تم نے دیکھی
نہ کہنا کہ کوزے میں دریا نہ دیکھا


یہاں دیر میں کی زیارت بتوں کی
وہاں کچھ حرم میں نہ پایا نہ دیکھا