یادوں کے دریچے

آج ساری کائنات چاندنی میں نہا رہی ہے نہیں بیوہ کی طرح سفید ساڑی میں ملبوس ہے۔ دُور آسمان پر چاند سِسک رہا ہے، تارے سُلگ رہے ہیں اور چاندنی دریچے سے میرے کمرے میں جھانک رہی ہے چاندنی جس کے ہونٹوں پر بیکراں اُداسی ہے، جس کی آنکھوں میں غم کے سایے لہرارہے ہیں۔
میں اپنے پلنگ پر لیٹی اِس مغموم اور اُداس چاند کو تک رہی ہوں، انگارے کی طرح جلتے ہوئے تاروں کو دیکھ رہی ہوں۔
پندرہ برس کے بعد میرے دل کے مندمل زخم آج پھر ہرے ہوگئے ہیں جن کی ٹیس اور شدید درد سے میں تلملارہی ہوں، تڑپ رہی ہوں اور بے چین ہورہی ہوں۔ پندرہ برس کے بعد پھر تمہاری یادوں کے نشتر دل میں چبھ رہے ہیں۔ کاش کل تم سے ملاقات نہ ہوئی ہوتی! کاش میں آج تمہارے ہاں نہ گئی ہوتی!!
کل تک میری زندگی کتنی خوش گوار تھی موسمِ گل کی طرح، عہدِ بہاراں کی طرح!!
لیکن آج تمہاری ملاقات نے ماضی کی تلخیوں اور دل کے زخموں کو تازہ کردیا ہے۔ یادوں کے دریچے سے ماضی کے وہ دُھندلے دُھندلے سے نقوش اُبھر رہے ہیں جن پر وقت کی گرد جم گئی تھی۔
اسکول سے کالج میں آکر میں ایک نئی زندگی سے روشناس ہوئی تھی لیکن اُس نئے ماحول کی گہما گہمی میں بھی نہ جانے کیوں مجھے اپنی زندگی میں خلاسا محسوس ہونے لگا تھا۔ اُن دنوں میں بچپن کی سرحد سے جوانی کے آنگن میں قدم رکھ رہی تھی۔ میرے دل میں کومل کومل خیالات انگڑائیاں لینے لگے تھے، رنگین تمنائیں اور آرزوئیں مچلنے لگی تھیں۔ اُ ن دنوں میں قدِّ آدم آئینے کے سامنے کھڑی ہوکر اپنے دلکش خطوط اور متناسب جسم کے سحر سے خود بخود مسحور ہوجاتی۔ اُس وقت میں مسکرائے بغیر نہیں رہ پاتی۔
اُنھیں دنوں تم سے ملاقات ہوئی۔
تم مجھ سے دو سال سینیر تھے۔ تم نے بی.اے. میں داخلہ لیا تھا۔ جب تمہیں ہاسٹل میں جگہ نہ مل سکی تو تم شہر میں کمرے تلاش کرنے لگے۔ اتفاق سے ابو جان سے تمہاری ملاقات ہوگئی۔ انھوں نے اپنے مکان میں تمہیں جگہ دے دی۔ نیچے کی منزل میں تم رہتے تھے اور بالائی منزل پر ہم سب۔
تمہاری شخصیت تمام محاسن سے مُزیّن تھی۔ تم ایک اچھے شاعر تھے اور افسانہ نگار بھی۔ تمہاری ادبی تخلیقات تمہاری غیر معمولی صلاحیت وذہانت کی آئینہ دار ہوتیں۔ تمہارے افسانوں میں حسین خلوت کدوں کے قہقہوں کی دلکشی اور تمہاری نظموں میں بلاکی رفعت اور روانی ہوتی۔ تم میں ظاہری حُسن کے ساتھ ساتھ باطنی خوبیاں بھی تھیں۔ تمہاری دلکش شخصیت میں بلاکی کشش تھی، تمہیں جو بھی دیکھتا تمہاری شخصیت سے مُتاثّر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ گھر کا ہر فرد تمہیں چاہتا تھا۔
میں بھی تم سے کافی متاثر ہوئی۔ تمہاری قربت نے میرے احساسات کو جگادیا۔ میری خوابیدہ تمنائیں انگڑائیاں لیتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔ تم حسین ورنگین فضا بن کر میرے ذہن واحساس پر چھانے لگے اور مجھے محسوس ہوتا جیسے کوئی میرے دل کی دہلیز پر دستک رے رہا ہے۔ میری مضطرب نگاہیں ہمیشہ تمہیں ڈھونڈتی رہتیں۔ اگر کبھی میری نگاہیں تمہاری نظروں سے ملتیں تو میں گھبراسی جاتی، سارا جسم مرتَعش ہوجاتا۔
رفتہ رفتہ میرا دل پڑھنے لکھنے کی طرف سے اُچاٹ ہونے لگا۔ میں اکثر تمہارے بارے میں جانے کیا کیا سوچتی رہتی پھر آپ ہی آپ مسکرا دیتی۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے تم میرے دل کی دھڑکنوں میں، میری سانسوں میں بس گئے ہو۔رات کو جب میں سونے کے لیے پلنگ پر جاتی، آنکھیں بند کر لیتی اور کہیں دور بہت دورمستقبل سے بے نیاز آشاؤں کے شیش محل میں کھوجاتی تو تمہارا چہرہ نگاہوں میں آتے ہی میں بے چین سی ہوجاتی۔
اور تب میں یہ سوچنے لگتی، تمہارے آنے سے میری حالت ایسی کیوں ہوگئی ہے، میں باؤلی سی کیوں ہورہی ہوں۔ اِس سے پہلے میں پیار اور محبت سے بالکل ناآشنا تھی لیکن آج میرے دل کے چمن میں یہ کیسا پھول کھلنے لگا ہے، مجھ پر یہ کیسی کیفیت طاری ہونے لگی ہے؟ کیا اسی کا نام محبت ہے،کیا اِسی کو پیار کہتے ہیں ؟؟ میری نگاہیں جمالؔ کو دیکھنے کے لیے اِتنی پریشان کیوں رہتی ہیں ؟؟
چاندنی اب بھی دریچے سے چھن چھن کر میرے کمرے میں آرہی ہے۔ چاند کی جانب تکتے تکتے میری پلکیں نم ہوگئی ہیں۔ نہ جانے یہ چاندنی میری پلکوں پر درد وغم کی شمعیں کیوں جلارہی ہے اور جلتے ہوئے آنسو میرے رخساروں پر ڈھلکتے ہوئے تکیے میں کیوں جذب ہورہے ہیں ؟؟
محبت تو ایک فطری جذبہ ہے۔ یہ فطری جذبہ ہر جوان کی طرح میرے بھی دل میں انگڑائیاں لیتا رہا۔ لیکن ایک مشرقی لڑکی اظہارِ محبت کیسے کرتی؟ مشرقی خاتون محبت کرنا جانتی ہے لیکن اُس کا اظہار نہیں کرسکتی۔ اُس کے پہلو میں دل ہوتا ہے، منھ میں زبان نہیں ہوتی، وہ اپنے من مندر میں کسی دیوتا کی پوجا کرسکتی ہے لیکن دعا کے لیے ہاتھ نہیں اُٹھا سکتی۔ اس لیے میں انتظار کرنے لگی کہ تم محبت کی پہل کرو۔ ہاں، مجھے یقین تھا تم بھی مجھے چاہتے ہو، مجھ سے پیار کرتے ہو اِس لیے کہ میں نے تمہاری آنکھوں میں اپنے لیے چاہت کی قِوسِ قُزَح دیکھی اور تمہارے سینے میں اپنے لیے پیار کا بیکراں سمندر محسوس کیا۔
اورا یک دن
میری سات سالہ بہن تبسمؔ نے مجھے ایک لفافہ دیا۔ یہ تمہارا محبت نامہ تھا۔ تم نے پہلی بار مجھے خط لکھا تھا۔ میں نے اپنے کمرے میں جاکر لرزتی اُنگلیوں اور کانپتے ہاتھ سے لفافہ چاک کیا، پھر دل کی تیز دھڑکنوں کے ساتھ شہد میں ڈوبے ہوئے خط کی تحریر پر نگاہیں جما دیں۔ چند ہی سطور میں تم نے دل کی ساری باتیں دامنِ قرطاس پر بکھیر دی تھیں۔ ایک ایک جملے سے خلوص ومحبت اور پیار کے نغمے اُبل رہے تھے۔ میرے ذہن میں نشاط ومسرت کی کہکشاں جگمگاتی رہی اور میں خط پڑھتی رہی، میں خط پڑھتی رہی اور میرے ذہن میں شہنائیاں بجتی رہیں، سرور وکیف میں فضا ڈوبتی رہی اور میں اپنے آپ کو اُس میں تحلیل ہوتی ہوئی محسوس کرتی رہی۔ مجھ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ میں نے کئی بار اس خط کو پڑھا جس میں تمہارا دل دھڑک رہا تھا، جس سے تمہاری حسین و جمیل تصویر جھانک رہی تھی۔ میرا جی چاہا کہ اس خوبصورت تحریر میں سماجاؤں۔
اُس رات آنکھوں میں ایک پل کے لیے نیند نہ آئی۔ میں اپنے پلنگ پر لیٹی سُہانے سپنے کے تانے بانے بُنتی رہی اور بار بار تمہارا محبت نامہ پڑھتی رہی، ایک درد ومسرت کا ملا جُلا احساس ہوتا رہا۔
میں اکثر دریچے میں بیٹھ جاتی اور خلاؤں میں تکتی رہتی پھر تصورات وتخیلات کی حسین وادیوں میں کھوسی جاتی جہاں رعنائیاں ہی رعنائیاں اور خوشیاں ہی خوشیاں ہوتیں، جہاں میرے کانوں میں پیار اور محبت کے نغموں کی لَے گونجتی سی محسوس ہوتی اور میں خود کو شاہراہِ حیات پر تمہارے ساتھ گامزن پاتی۔
میں نے ابھی ابھی کروٹ بدلی ہے۔ چاند کی شیتل کرنیں سوئیاں بن کر میرے جگر کو چھید رہی ہیں۔ فضا سِسک رہی ہے اور ماضی کے سایے میرے ذہن پر چھائے جارہے ہیں۔
وقت گُزرتا رہا
ہمارے درمیان سے تکلّفات کی دیواریں ہٹتی گئیں، حجاب کے پردے چاک ہوتے گئے۔ میں نے جو خواب دیکھا تھا وہ شرمندۂ تعبیر ہوگیا۔ مجھے اپنے خوابوں کا شہزادہ مل گیا۔ میں نے تم سے محبت کی، تمہیں چاہا اور تم سے پیار کیا میرے تصور میں ایک چھوٹا سا گھر ہوتا جس کے آنگن میں ننّھے ننّھے پیارے پیارے بچے کھیلتے ہوتے، جس کے پائیں باغ میں طرح طرح کے پھولوں کے پودے ہوتے، کھڑکیوں اور دروازے پر نیلے نیلے پردے ہوتے اور میں بیٹھی چائے پیتے ہوئے تم سے باتیں کرتی۔ کتنا رنگین اور کتنا حسین تصور تھا میرا !!
تم گھر کے ایک فرد کے مانند تھے۔ابو جان تمہیں بہت چاہتے تھے اور اپنے کام میں تم سے رائے لیتے تھے۔ تم گھر کے ہر فرد سے بے تکلف تھے لیکن تم مجھ سے کچھ دور ہی دور رہا کرتے۔ تم یہ نہیں چاہتے تھے کہ گھر کے دوسرے افراد پر ہماری محبت آشکار ہوجائے، ہمارا راز فاش ہوجائے۔ تمہارا یہ سوچنا اچھا ہی تھا۔ ورنہ ہمارے سنہرے خواب پریشان ہوجاتے اور ہم اپنی منزل تک نہ پہنچ سکتے۔ اس لیے کہ میرے خاندان کی روایات میں پیار اور محبت ایک ناقابلِ معافی جرم تھا۔ ابّو جان اُسے معاشرت کی برائی سمجھتے، امی اُسے بُری نظر سے دیکھتی تھیں۔ لیکن پھر بھی ہم ایک دوسرے کو دیوانگی کی حدتک چاہتے رہے۔ گھر میں سب مجھ سے محبت کرتے تھے۔ ابّو جان کی بیکراں شفقت، امّی کی بے پایاں محبت اور بھائیوں کا بے اندازہ پیار حاصل تھا۔ اس لیے مجھے یقین تھا کہ وہ ہمارے نیک جذبات کا احترام کریں گے۔ ہماری محبت بھی تو شبنم کی طرح کومل، نازک اور پاکیزہ تھی !!
ہماری چاہت، ہماری محبت پروان چڑھتی رہی اور ہم انجام سے بے خبر، مستقبل سے بے نیاز پیار کی راہ میں قدم بڑھاتے رہے۔ میری تمناؤں اور آرزوؤں کے چمن میں تمہاری محبت کی کلیاں مسکراتی رہیں اور میرے دل میں مسرت وشادمانی کے پھول کھِلتے رہے۔ کائنات کی ہر شے سے دلچسپی بڑھتی رہی، چاند کی مُسکراہٹ اور ستاروں کے قہقہے کا ساتھ دیتی رہی، رنگ بہ رنگ کے پھولوں میں کشش بڑھتی رہی۔
لیکن آج
اِس وقت میرے چاروں طرف غم واندوہ کا سنّاٹا ہے، حسرتوں اور مایوسیوں کے دم گُھٹا دینے والے مہیب اندھیرے ہیں، تنہائیاں ہیں، چاندنی کے نشتر اور یادوں کے تیر ہیں۔
اور یادوں کے تیر ونشترسے زخمی ومجروح ہوکر میں اپنے پلنگ پر پڑی سِسک رہی ہوں۔ چاند کی بھی آنکھیں نمناک ہیں، وہ بھی تو سِسک رہاہے میرح طرح!
وقت گزرتا رہا ماہ وسال کے سایے طویل ہوتے گئے اور ہماری محبت کے چمن میں آرزوؤں کے پھول لہلہاتے رہے، اُمیدوں کے کنول کھِلتے رہے۔
ایک دن میں کالج سے تھکی تھکی سی آئی تھی۔ میں ڈرائنگ روم کے پاس سے گُزر رہی تھی۔ میں اپنا نام سُن کر ٹھِٹک گئی۔ تم کہہ رہے تھے
’’لیکن آپ نکہت کی مرضی ‘‘
’’نکہت ابھی بچی ہے۔ میں جو کررہا ہوں وہ سب ٹھیک ہے۔‘‘
ابّو جان نے تمہاری بات کاٹتے ہوئے کہا۔
میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں
اور ایک دن تبسم نے بتایا میرا رشتہ اقبال سے طے ہوگیا ہے۔ وہ ابو جان کے دوست کا لڑکا ہے۔ وہ بہت خوبصورت، تعلیم یافتہ اور دولت مند ہے۔
میں لرز اٹھی
میری پیشانی پر غم واندوہ کی لکیریں اُبھر آئیں اور میرے چہرے پر اُداسی کے سایے پھیل گئے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے مجھ سے میری زندگی چھین لی ہے۔ دل چاہا کہہ دوں، یہ ہرگز نہیں ہوسکتا! لیکن الفاظ ہونٹوں پر آنے سے پہلے حلق میں گُھٹ کررہ گئے۔
اُس رات مجھے ایک پل کے لیے نیند نہ آئی۔ میں تمہارے بارے میں سوچتی رہی اور :
اشک بہتے رہے ، رات ڈھلتی رہی
دل میں یادوں کی اِک شمع جلتی رہی
میں نے تم سے ملنا چاہا لیکن تم کسی کام میں مشغول رہے، تم سے ملاقات نہ ہوسکی۔ میری ذہنی اُلجھنیں بڑھتی رہیں اور میں عجیب کشمکش میں مبتلا رہی۔
ایک شب تم اپنے کمرے میں مل گئے۔ میں دبے پان58و اندر داخل ہوئی۔ تم چھت کی جانب تک رہے تھے اور آہستہ آہستہ گُنگنارہے تھے :
کانٹوں پہ بھی نیند آجاتی ہے غم میں بھی بسر ہو جاتی ہے
مایوس نہ ہو اے ہمتِ دل ہر شب کی سحر ہوجاتی ہے
میں نے دیکھا تمہاری پلکیں بھیگ رہی ہیں۔ میری آنکھوں میں آنسو لرزنے لگے اور میری سِسکیاں فضا میں اُبھرنے لگیں۔ تم مجھے سمجھانے لگے۔ میں تمہارا ساتھ دینے کو تیار ہوئی۔ سول میرج کی تجویز پیش کی۔ لیکن تم نے ایسا کرنے سے منع کردیا۔ اُس سے میرے خاندان کی ناک کٹ جاتی، خاندان کا وقار، خاندان کی آبرو خاک میں مل جاتی۔ تم مجھے سمجھاتے رہے اور میں سِسک سِسک کر روتی رہی، سِسکیاں فضا میں اُبھرتی رہیں۔
خزاں کے ایک ہی جھونکے نے آرزوؤں کے چمن کو ویران کردیا، تمناؤں کے تمام پھول مُرجھاگئے، امیدوں اور اُمنگوں نے تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیا۔ کتنی ظالم ہوتی ہیں یہ خاندان کی روایات !! انھیں کیا معلوم کہ لڑکی پتھر کی مورتی نہیں ہوتی، عورت کے پہلو میں بھی دل ہوتا ہے جس میں احساسات وجذبات انگڑائیاں لیتے ہیں، تمنائیں مچلتی ہیں اور آرزوئیں کروٹیں لیتی ہیں۔
ابّو جان تمہیں بہت چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے سارے کام تمہارے سپرد کردیے۔ تم میری شادی کے انتظام میں مشغول رہے۔ تم نے میرے لیے سرخ سُرخ جوڑے اپنی پسند سے خریدے، میز کرسیوں کا انتظام کیا اور دعوت نامے کا مضمون بھی تم ہی نے لکھا۔ لیکن تم میری شادی میں شریک نہ ہوسکے۔ تمہارے گھر سے تار آگیا اور تم شادی سے دو دن پہلے اپنے گھر چلے گئے۔ گھر جانے سے پہلے تم مجھے مبارکباد دینے آئے۔ میں زندگی کی آخری دھڑکنوں تک تمہاری اُن نگاہوں کو بھول نہیں سکتی جن میں لامحدود کرب، بیکراں تڑپ اور بے پایاں یاس تھی۔ اُس وقت میری آنکھوں کے آنسوؤں میں میرے دل کے جذبات لرز رہے تھے۔ میں کچھ کہنا چاہ رہی تھی لیکن میرے ہونٹ تھرتھرا کر رہ گئے۔ یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد تم مجھ سے بچھڑ گئے اور میں تم سے جدا ہوگئی۔
اس وقت بھی تمہاری اُن نگاہوں کے تصور سے میری آنکھیں چھلک پڑی ہیں۔ میرا دل ودماغ انگارے کی طرح دہک رہا ہے۔
اُف یہ کیسی تپش ہے!
یہ کیسا سوز ہے!!
یہ کیسی جلن ہے جو میرے وجود کو جلا رہی ہے!
میرے حلق میں کانٹے چُبھ رہے ہیں، سینے میں انگارے دہک رہے ہیں۔ میں اُٹھ کر کمرے کے گوشے میں رکھی ہوئی صراحی سے پانی پی رہی ہوں ایک نہیں دو نہیں تین نہیں صراحی خالی ہوگئی ہے۔ لیکن سینے کی آگ بجھتی ہی نہیں، اور بھڑک رہی ہے!
میں پھر پلنگ پر لیٹ گئی ہوں
میں اپنی تلخیوں، حسرتوں اور ناکامیوں کو دل کی گہرائیوں میں چھپائے اقبالؔ کے ساتھ کراچی آگئی۔ بیتے ہوئے دنوں کی ساری یادیں میری آنکھوں کے سامنے رقص کرتی رہیں، دل میں حسرتوں کے شعلے سلگتے رہے، تنہائیاں آنسوؤں میں ڈوبتی رہیں، میں تڑپتی رہی اور برسوں میری متلاشی نگاہیں تمہارے لیے بے قرار رہیں۔
تم نے مجھ سے کہا تھا میں اپنے ماضی کو خواب سمجھ کر بھلادوں۔ تمہاری یہی خواہش تھی کہ میں ہمیشہ خوش رہوں، کبھی دُکھی نہ ہوں میں نے ایسا ہی کیا۔ وقت ماضی کی یادوں پر بادل بن کر چھاتا رہا اور میں نے تمہیں فراموش کردیا۔ شوہر کے بے اندازہ پیار نے سارا غم بھلادیا۔ شوہر کے بھرپور پیار کے ساتھ ساتھ بے شمار دولت، عالیشان عمارت، قیمتی کار غرض کہ عشرت بکنار زندگی کے تمام لوازم تھے اور میں تھی! اُن تمام چیزوں نے مل کر مجھے زندگی کی تلخیاں کبھی نہ محسوس ہونے دیں اور میں زندگی یوں گزارنے لگی جیسے میری زندگی میں کبھی کوئی آیا ہی نہیں۔ مجھے اپنی ناکامی، اپنی حسرت ، اپنی تڑپ کا احساس نہ رہا۔
ہر چند کہ میں نے ماضی کے لمحات کو فراموش کردیا لیکن جمالؔ ! تم ہی بتاؤ وقت بیت جانے پر بھی کوئی اپنے دل پر منقّش تصویر کوکیسے مٹا سکتا ہے؟ :
کبھی برسوں کی یادیں بھی بھلاے بھول سکتی ہیں
جو نقشِ کالحجر ہو مٹ نہیں سکتا مٹانے سے!
ہفتے مہینے اور مہینے سال بنتے گئے پندرہ برس کا زمانہ بیت گیا۔ لیکن مجھے اُس کا احساس بھی نہ ہوا۔ میں اقبالؔ ہی کو سب کچھ سمجھنے لگی۔ وہ مجھے بہت چاہتے تھے۔ میں بھی انہیں پیار کرتی تھی۔
لیکن آج
میرے دل کے زخموں کے ٹانکے ٹوٹ گئے ہیں۔ ایک کسک ایک خلش میرے دل کو اداس بنارہی ہے۔ دل کی گہرائی سے لہراتا ہوا دُھواں اُٹھ رہا ہے۔ میں تڑپ رہی ہوں اور دل کی اُداسی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی ہے۔
کل
شام کا وقت تھا۔ آفتاب کی سنہری کرنیں درختوں کی پُھنگنوں کو چوم رہی تھیں۔ اقبالؔ کے دفتر سے آنے کا وقت ہورہا تھا اورمیں اُن کا انتظار کررہی تھی۔
وہ آئے۔ ان کے ساتھ تم بھی تھے۔ میں تمہیں دیکھ کر تڑپ گئی۔ دل میں ایک ٹیس اُٹھی تم پندرہ برس کے بعد میرے پاس کس لیے آئے، کس شے کی تمہیں تلاش ہے، تمہاری کون سی چیز میرے پاس رہ گئی ہے۔ میں نے تمہاری ساری چیزیں لوٹادی ہیں بلکہ میں تو پندرہ سال پہلے اپنی مُسکراہٹیں، اپنے قہقہے، اپنی خوشیاں اور اپنا سکون، تمہارے حوالے کرکے اپنے سسرال آگئی۔
’’یہ میرے پُرانے دوست ہیں، مسٹر جمالؔ ——اور یہ تمہاری بھابی نکہتؔ اقبال۔‘‘
اقبالؔ نے ہمیں متعارف کرایا۔
میں نے محسوس کیا بھابی کے لفظ پر تمہاری آنکھوں میں غم کے سایے تیرنے لگے اور چہرے پر اُداسی کی لکیریں اُبھر آئیں۔ جتنی دیر تم میرے یہاں رہے ہم ایک دوسرے کے لیے اجنبی بنے رہے جیسے ہم کبھی ایک دوسرے سے آشنا ہی نہ تھے۔ میں جب بھی نظر اُٹھاتی تمہاری اُداس اُداس مغموم آنکھیں اپنی طرف تکتی ہوئی پاتی۔ شاید تم مجھ میں کچھ تلاش کررہے تھے۔
تم بہت دیر تک میرے یہاں رہے اور جاتے ہوئے تم نے مجھے اور اقبالؔ کو دوسرے دن اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔
دوسرے دن اقبالؔ کے سر میں درد ہوگیا۔ میں اُنھیں چھوڑ کر تنہا تمہارے پاس جانا نہیں چاہتی تھی۔ لیکن اقبالؔ کے اصرار اور ضد کے سامنے مجبور ہوجانا پڑا اور میں تنہا تمہارے ہاں چلی گئی۔
تم بہت خوش خوش نظر آرہے تھے۔ تم نے گھر کی ایک ایک چیز دکھائی۔ ناشتے اور چائے سے نوازا۔
میں نے تمہاری خوبصورت آنکھوں میں خزاں رسیدہ شام کی ویرانی دیکھ کر پوچھا
’’مکان سونا سونا معلوم ہورہا ہے۔ بیگم جمال نہیں دکھائی دے رہی ہیں؟‘‘
میرے اس سوال پر تمہاری مغموم نگاہیں اُٹھیں اور تمہارے چہرے پر اُداسی کے سایے گہرے ہوگئے۔
’’بیگم جمال ؟ یکایک کل اُن کے میکے سے ٹیلی گرام آگیا۔ وہ میکے چلی گئیں۔‘‘
’’کیوں کیسی ہیں بیگم؟‘‘
میں نے پوچھا۔
تمہارے ہونٹوں پر زہر خند لہرا گیا۔ تم نے کہا
’’بہت اچھی! جب سے وہ میری زندگی میں داخل ہوئی ہیں میری دنیا ہی بدل گئی ہے۔ ماضی کی تلخیاں بیتی باتیں بن گئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں زندگی ہی میں جنت کے مزے لے رہا ہوں‘‘۔
اور میں یہ سب سنتی رہی۔ پندرہ سال پہلے کے جو زخم مندمل ہوچکے تھے تمہاری قربت نے اُنھیں ہرا کردیا اور ماضی کی باتیں، ماضی کی یادیں ایک ایک کرکے سامنے آنے لگیں۔ میں گھبراسی گئی۔
میں اقبالؔ کو تنہا چھوڑ کر گئی تھی۔ اِس لیے میں رُک نہ سکی۔ چلتے وقت تم نے کہا
’’نکہت: کم از کم تم بیگم جمال کی تصویر ہی دیکھ لو شاید تمہیں بھی پسند آئے‘‘۔
اور تم نے بکس سے ایک خوبصورت فریم میں لگی ہوئی تصویر نکال کر میری طرف بڑھادی۔
تصویر پکڑتے ہی میرے ہاتھ کانپنے لگے اور دوسرے لمحے وہ چھن سے زمین پر گر پڑی۔ اُس کے بے شمار ننھے ننھے ریزے جیسے میرے دل کی گہرائیوں میں چبھنے لگے۔ پندرہ سال پہلے کی یہ میری اپنی ہی تصویر تھی جس کے نیچے ’’نکہت جمال‘‘ لکھا ہوا تھا۔
رات ڈھل چکی ہے۔ سِسکتا چاند غم سے نڈھال مغرب کی آغوش میں جھک گیا ہے، میری آنکھوں میں آنسو تیر رہے ہیں۔ میرے دل میں ٹوٹی ہوئی کرچیاں سی چُبھ رہی ہیں اور میں غم واندوہ سے نڈھال اپنے پلنگ پر پڑی تکیے کو سینے سے لگائے سِسکیاں بھر بھرکر رو رہی ہوں، تڑپ رہی ہوں۔ تکیہ آنسوؤں سے بھیگ رہا ہے اور میری سِسکیاں خاموش فضا میں تحلیل ہورہی ہیں۔