یارا نہیں جن میں دشمنی کا
یارا نہیں جن میں دشمنی کا
دعویٰ نہ کریں وہ دوستی کا
عنواں نہ ملے جو خود سری کا
کھلتا نہیں باب آگہی کا
ان کو تھا خیال دوستی کا
وہ دور گزر چکا کبھی کا
دستور نہیں کچھ اس صدی کا
کب دور نہ تھا روا روی کا
اے دوست گلہ نہ کر کسی کا
احساس ہے یہ بھی کمتری کا
وہ چاند اتر چکا ہے دل میں
محتاج نہیں جو روشنی کا
بہتان ہے یہ کہ جی رہا ہوں
الزام ہے مجھ پہ زندگی کا
جینے کو تو جی رہی ہے دنیا
جینا ہے مگر کسی کسی کا
جس وقت سحر قریب ہوگی
پوچھیں گے مزاج چاندنی کا
وہ پوچھ رہے ہیں مجھ سے طارقؔ
کیا حال ہے تیری شاعری کا