یاد ایام رفتہ یوں آئے
یاد ایام رفتہ یوں آئے
دھندلے دھندلے سے جیسے کچھ سائے
جیسے اڑتے ہوئے پرندے کا
نغمہ دم بھر فضا میں لہرائے
جیسے ویران دل کے گلشن میں
چپکے چپکے بہار آ جائے
سونی سونی سی جیسے محفل میں
دفعتاً جان انتظار آئے
جیسے ابر سیہ کے پردے میں
چاند کی اک کرن تھرک جائے
جیسے سنسان رہ گزاروں میں
یک بیک اک چراغ جل جائے
یا کوئی رند تشنہ لب جیسے
دست ساقی سے جام پا جائے
جیسے مہجور ایک غزل گا کر
اپنے غمگین دل کو بہلائے
جیسے تاریک شب کا سناٹا
نغمۂ لے سے ٹوٹتا جائے
ایک طوفاں زدہ مسافر کے
جیسے ساحل قریب آ جائے
جیسے تپتے سے ریگزاروں میں
ابر رحمت ذرا برس جائے
جیسے پہلی کرن سویرے کی
روزن شب سے جھانکتی جائے
جیسے باد صبا کے جھونکوں سے
غم کے ماروں کو نیند آ جائے
جیسے غربت میں بھٹکے راہی کو
اک پیام حبیبؔ آ جائے