ہومیوپیتھی اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے

پاکستان سمیت دنیا بھر 10 اپریل کو ہیومیوپیتھک طریقہ علاج سے متعلق آگہی اور شعور پیدا کرنے کے لیے ہومیوپیتھی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ہر سال یہ دن ہومیو پیتھی طریقہ علاج کے بانی ڈاکٹر سیموئل ہانمن کے یوم پیدائش(بمطابق 10 اپریل 1755ء) کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ ہومیو پیتھی ایسا طریقہ علاج ہے جس میں عموماً ادویات بیماری کے نام کے بجائے مرض کی علامات سے تجویز کی جاتی ہیں۔

ہمارے ہاں عمومی طور تین قسم کے طریقہ ہائے علاج رائج ہیں: 1۔ طب/حکمت 2۔ ایلوپیتھک 3۔ ہومیو پیتھک ۔ ہومیوپیتھی اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے اس وقت ہومیوپیتھک طریقہ علاج دنیا کا دوسرے نمبر پر مسلمہ بہترین طریقہ علاج ہے جس کو ڈاکٹر سیموئل ہا نمن نے ایجاد کیا تھا۔ ڈاکٹر سیموئل ہانمن ایلوپیتھک طریقہ علاج کے بھی بانی ہیں۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ جس انسان نے ایلو پیتھک میڈیسن ایجاد کی اسی نے ہی ہومیوپیتھی ایجاد کی۔ ہومیو پیتھی کو علاج بالمثل کہا جاتا ہے۔ ہومیو کا مطلب ہے یکساں، ایک جیسا اور پیتھی سے مراد بیماری۔ ہومیوپیتھی کا اصول ہے کہ بیماری کا علاج وہی بیماری پیدا کرنے والے اجزاء سے ہوسکتا ہے۔ اس اصول کو انگریزی میں Like cures like کہا جاتا ہے۔ یعنی لوہا لوہے کا کاٹتا ہے۔ ہومیوپیتھی سے متعلق آگہی اور شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوامی سطح پر اس سے مستفید ہوا جاسکے۔

میں اکثر ایلو پیتھک میڈیسن کی مثال ایسے دیا کرتا ہوں کہ ایلو پیتھک میڈیسن ایسی ہی ہے جیسے ایک بچہ رو رہا ہو اسے دو تھپڑ لگا کے چپ کر دیا گیا ہو ، ایلو پیتھک میڈیسن بھی ایسے ہی ہے یہ بھی وقتی طور پر فوراً فاقہ ضرور کرتی ہے لیکن بعد میں اس کے نقصانات بہت ہیں، ہومیوپیتھک میڈیسن مکمل صحت یاب کرتی ہیں اور ایلو پیتھک میڈیسن صرف ریلیف دیتی ہیں۔

آج کل لوگوں میں ایک غلط افواہ پھیلی ہوئی ہے کہ ہومیوپیتھک میڈیسن نا نقصان کرتی ہیں اور نا ہی فائدہ دیتی ہیں۔ بلکہ ہمارے ہاں کسی کو بے ضررکہنا ہو تو اسے کہا جاتا ہے کہ تمھارے کام ہومیوپیتھی دوا جیسے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے ہومیوپیتھک میڈیسن نقصان بھی کرتی ہیں اور فائدہ فوراً کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پرانی بیماریوں میں آ ج کل ایلو پیتھک علاج سالہاسال تک جاری رہنے کے باوجود اثر پذیر نہیں ہو سکا۔ کیونکہ وہ نہ تو مریض کی مجموعی علامات کے موافق ہے اور نہ اس قدر شدید ہے۔ اگر آ نے والی بیماری چاہے پہلی بیماری سے مختلف ہو، مگر زیادہ طاقتور ہو تو پہلی بیماری دب جایا کرتی ہے جب تک کہ دوسری طاقتور بیماری اپنی میعاد پورا نہیں کر لیتی۔ معالجہ میں کسی بیماری کو دبا دینا،مریض کے لیے ہمیشہ خطرناک ہوا کرتا ہے۔اس لیے جہاں تک ممکن ہو سکے دبے ہوئے امراض کو بھی ابھار دینا چاہیے، کیونکہ جب تک دشمن سامنے ہے اس کے ساتھ تیرو تفنگ سے لڑا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے ایک دفعہ قلعہ بند ہو جانے کے بعد اس کا حل مشکل ہو جایا کرتا ہے۔

اڑھائی سو برس کے بعد بھی ہومیو پیتھی طریقہ علاج اپنی افادیت، اہمیت اور موئثریت کے میدان میں اپنا لوہا منوارہا ہے۔ جس طرح طب/حکمت کے شعبے میں غیر تجربہ کار،نیم حکیم اور جعلی لوگوں نے قبضہ کرلینے کی وجہ سے یونانی اور دیسی طریقہ ہائے علاج بارے غلطی فہمیاں جنم لے چکی ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں ہومیوپیتھی کے میدان میں حکومتی سرپرستی نہ ہونے، تحقیق کے لیے اداروں کی عدم دل چسپی اور جدید طریقہ کار کو نہ اپنانے سے اس بارے عوام بدظن ہیں۔ کالج اور یونیورسٹی سطح پر ہومیوپیتھی کے کورسز کو شامل کیا جائے۔ تحصیل اور ضلعی سطح کے سرکاری ہسپتالوں میں ہومیو ڈاکٹر کی اسامی کو شامل کیا جائے۔ غیر مستند اور غیر تجتبہ کار افراد کو ہومیو پیتھی کی پریکٹس پر پابندی عائد کی جائے۔ حکومتی سطح پر ہومیوپیتھی کی سرپرستی کی ضرورت ہے تاکہ اس طریقہ علاج سے صحت کے حوالے سے حوصلہ بخش سہولیات میسر آسکیں۔