وہ جو جرمِ بے گناہی پہ اسیر ہیں

انسانی حقوق اور عالمی قوانین:

انسانیت نے بیسویں صدی کے پہلے نصف حصے میں جب دو عالمی جنگوں کی صورت میں انسانیت سوز سانحے دیکھ لیے تو فیصلہ کیا کہ اقوام متحدہ کے نام سے ایک ادارہ بنایا جائے جو مستقبل میں اس قسم کے نہ صرف  سانحات روکے بلکہ انسانی حقوق کی فراہمی کو بھی یقینی بنائے۔ اس اقوام متحدہ کے لیے جب چارٹر یا دوسرے الفاظ میں آئین لکھا گیا تو اس کے اندر بتایا گیا کہ اب کے دنیا میں تمام لوگوں  کو برابری کی سطح پر دیکھا جائے گا، سب کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا،، انسان کی عظمت اور تقدس کو یقینی بنایا جائے گا اور ایسی قدغنیں لگائیں جائیں گی جن سے تمام اقوام چاہے  چھوٹی ہوں یا بڑی عالمی قوانین کے مطابق طے پانے والے معاہدوں  کی پاسداری کریں۔

          اقوام متحدہ کے اس چارٹر کی منظوری کے بعد 1948 میں پچاس ممالک کی موجودگی میں اور امریکہ کی 1945 تک رہنے والی خاتون اول الینا روزویلٹ کی سربراہی میں ان بنیادی حقوق کا تعین کیا گیا جو دنیا کے تمام انسانوں کو بلا تفریق  حاصل ہونےتھے۔  یہ بنیادی حقوق تعداد میں تیس ہیں اور جس دستاویز میں یہ درج ہیں انہیں عالمی اعلامیہ برائے انسانی حقوق یا یونیورسل ڈیکلریشن اف  ہیومن رائٹس کہتے ہیں۔  اس انسانی حقوق کے اعلامیے میں بتایا گیا کہ تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں اور آزاد ہیں اپنی سوچ اور عقائد رکھنے میں۔ کوئی انسان کسی دوسرے پر تشدد نہیں کر سکتا۔ ہر ایک کو برابر قانونی تحفظ حاصل ہے چاہے وہ دنیا کے کسی حصے سے بھی ہو۔ کوئی کسی کو قید نہیں کرسکتا، نہ ہی گرفتار یا  ملک بدر،سوائے یہ  کہ ایسا کرنے کی ٹھوس وجوہات موجود ہوں۔ اور ان سب بڑھ کر کسی ملزم کو اس وقت تک مجرم نہیں سمجھا جاسکتا جب تک کہ اس پر الزامات ثابت نہ ہو جائیں۔

          اقوام متحدہ میں ان بنیادی حقوق کی منظوری کے بعد   ان حقوق کا بھی تعین ہوا جو کہ خدانخواستہ جنگ کی صورت میں  جنگی قیدیوں کو حاصل ہوں گے۔ ان حقوق کے تعین کے لیے  1949 میں چار کنونشنز متعارف کروائے گے۔ ان کو جنیوا کنونشن کہتے ہیں۔  کنونشن عالمی قانون میں وہ دستاویز یا معاہدہ ہوتا ہے جس پر دستخط کرنے کے بعد ہر ملک اس معاہدے پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔   جنگی قیدیوں کے لیے ان جنیوا کنونشنز پر  پاکستان اور امریکہ سمیت تقریباً دنیا کے تمام ممالک ہی دستخط کر چکے ہیں۔  ان میں سے تیسرا کنونشن کہتا ہے کہ  کسی بھی جنگی قیدی پر تشدد نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی زبردستی اس سے معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مزید یہ کنونشن کہتا ہے کہ جنگی قیدیوں کو صحیح کھانا، طبی سہولیات اور دیگر بنیادی سہولیات حاصل ہوں گی۔  

          اس کے بعد اقوام متحدہ میں تشدد کے خلاف کنونشن بھی پیش کیا گیا جو کہ 1987 سے لاگو ہو گیا۔ یہ کنونشن قیدیوں  پر تشدد کرنے کی ممانعت کرتا ہے۔ امریکہ نے  تحفظات کے ساتھ ہی سہی ، لیکن اس کو بہرحال  قبول کیا ہوا ہے۔ اس کنونشن کے علاوہ بھی دیگر  عالمی قوانین ہیں جو تشدد کی سخت ممانعت کرتے ہیں اور انسانی جان کی عظمت پر زور دیتے ہیں۔

عالمی قوانین اور عالمی طاقت امریکہ:

          یہاں آپ کو انسانی حقوق اور قیدیوں کے حقوق کے عالمی قوانین بتانے کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ  آپ کو یہ بتایا جائے ، کہ عالمی قوانین میں اس حوالے سے کیا پیش رفت ہو چکی ہے، بلکہ ہمارا مقصد  یہ تھا کہ گوانتانامو اور ابو غریب کے انسانیت سوز قید خانوں کا ذکر چھیڑنے سے پہلے آپکو ایک چھوٹی سی تصویر دے دی جائے کہ کن عالمی قوانین کے ہوتے ہوئے یہ قید خانے کھلے اور پھر سالوں تک چلتے رہے، بلکہ گوانتانامو کا قید خانہ تو اب بھی  اپنے شکنجے میں لیے چالیس قیدی بیٹھا ہے۔  مزید یہ کہ یہ قید خانے اس عالمی قوت نے باقاعدہ  اپنے صدر کے احکامات پر کھولے جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کی علم بردار بنی پھرتی ہے اور جس عالمی قوت کی خاتون اول کابنیادی انسانی حقوق کے اعلامیے کی تشکیل اور منظوری میں بہت اہم کردار ہے

درج ذیل  تفصیلات خود مغرب اور اقوام متحدہ کی تنظیموں نے درج کی ہیں، ان کی رپورٹس امریکہ کی کانگرس میں پیش ہو چکی ہیں اور کئی لکھاری ان کو متاثرہ افراد سے انٹرویوز  کے بعد لکھ کر پیسے بنا چکے ہیں۔

گوانتانامہ ایک انسانیت سوز قید خانہ:

          گوانتانامو ، کیوبا میں موجود ایک امریکی بحریہ  کا اڈا ہے، ۔اس پر جنوری 2002  میں نو گیارہ کے بہانے سے شروع ہونے والی مسلم کش  جنگ کے قیدیوں پر تشدد کے لیے قید خانہ بنانے کا فیصلہ ہوا۔ اس قید خانے میں تشدد کی ایسی داستانیں رقم ہوئیں کہ  جب ان کی کہانیاں باہر نکلیں تو پوری انسانیت ہی شرما گئی۔  اس قید خانے میں تشدد کے طریقہ کاروں کو وضع کرنے کے لیے امریکہ کی انٹیلجنس ایجنسی، سی آئ اے نے دو ماہر نفسیات  بروس جیسن اور جیمز مچل کو ہائر کیا۔  ان سفاک ماہر نفسیات نے نفسیاتی اور جسمانی تشدد کے وہ طریقہ کار وضع کیے کہ   انہیں پڑھنے والے کے بھی رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔  ان طریقہ کاروں میں جسمانی تشدد،  روشنی اور آواز کی زیادتی سے تشدد،  کتوں کو قیدیوں پر چھوڑنا،  کئی کئی دن تک سونے کی اجازت نہ دینا، جنسی زیادتی، پانی میں غوطے لگانا اور اس زور سے  ہتھ کڑیاں باندھنا کہ ہاتھوں پیروں سے خون نکل پڑے جیسی اذیتیں شامل ہیں۔  وہاں رہنے والے قیدی  بتاتے ہیں کہ انہیں کئی کئی گھنٹے اس پوزیشن میں رکھا  جاتاکہ نہ بیٹھا جاتا، نہ کھڑا ہوا جاتا اور نہ ہی لیٹا جاتا۔   ان قیدیوں کے لیے سب سے اذیت ناک لمحہ وہ ہوتا جب قرآن پاک کی بے حرمتی کی جاتی اور ایسی کی جاتی جو بیان سے باہر ہے۔

          اور کیا آپ جانتے ہیں کہ ان اذیتوں سے جو بیشتر قیدی گزرے وہ امریکہ کے اپنے مطابق بے گناہ تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کےمطابق اب تک اس قید خانے میں 780 قیدی رکھے جن میں سے 730 ایسے تھے جن  کو بغیر  چارج کے رکھا گیا۔   ان کو   کسی قسم کے ٹرائل کی سہولت دی گئی اور نہ ہی   کوئی ٹھوس الزامات تھے۔ بس یوں ہی یہ قید خانہ ان  کی زندگی کے کئی سال نگل گیا۔  اب بھی 780 قیدیوں میں سے چالیس ایسے ہیں جو اپنی رہائی کے منتظر ہیں۔  

          سوال بس یہاں یہ ہے کہ کون ان کی زندگی کے وہ قیمتی سال لوٹا سکے گا جو ایسی جگہ پر گل گئے جہاں زندگی ایسی تھی کہ جینے والا موت کی دعا کرنے لگے۔ شرمندگی کی بات تو یہ ہے کہ تاریخ یہ سوال ہم پاکستانیوں سے بھی پوچھے گی ، کیونکہ ان قیدیوں میں سے کئی کو ہم نے امریکیوں کے ہاتھ بیچا تھا ۔ کیا ہم اپنے سینے سے کبھی ان کو دی جانے والی اذیتوں کے داغ دھو سکیں گے؟؟؟

ابو غریب ایک انسانیت سوز قید خانہ:

          2003 میں جب امریکہ نے عراق  پر حملہ کیا تو اس کے دارالحکومت میں ابو غریب نامی قید خانہ بنایا۔  اس قید خانے میں بھی ستر سے اسی فیصد قیدی ایسے تھے جو بے گناہ تھے۔ یہ قیدی محض شک کی بنیاد پر پکڑے گئے تھے۔ ان قیدیوں میں کئی خواتین بھی تھیں جو سفاک امریکی فوجیوں کی درندگی کا شکار ہوتیں ۔ 2004 میں جب اس قید خانے کی تصاویر لیک ہوئیں تو انسانیت لرز کر رہ گئی۔  ایک تصویر میں فوجی قیدی کو گلے میں کتے کی طرح رسی ڈالے کھینچ رہا تھا۔ اسی طرح ایک اور تصویر میں ایک شخص کرنٹ لگانے والی تاریں لیے کھڑا تھا۔ ابو غریب کے اس قید خانے میں کئی قیدیوں کو برہنہ ایک دوسرے پر پھینک دیا جاتا جیسے بے کار سامان پھینکا جاتا ہے۔  

حاصل کلام:

کبھی جو مستقبل میں تعصبات کی گرد ہٹا کر 2001 میں شروع ہونے والی مسلم کش جنگ  کے نقش دیکھے جائیں  گے تو ہمیں   خوف ہے کہ پاکستان امریکہ کے بعد وہ دوسرا ملک ہوگا جس کا گریبان پکڑا جائے گا۔ کیوں کے اس جنگ  کے نقوش میں سے  یہ بد نام زمانہ قید خانے ابو غریب اور گوانتانامو کے بر آمد ہونگے۔     شاید ابو غریب تو نہیں لیکن گوانتانامو جب اپنے قیدیوں پر تشدد اور اذیتوں کی داستانیں سنائے گا تو پاکستان کا نام ایسے گونجے گا کہ ہم سب پاکستانیون کا سر شرم سے جھک جائے ۔  گو کہ پاکستانیوں کا ہاتھ گوانتانامو کے قیدیوں پر تشدد میں نا ہونے کے برابر ہوگا لیکن  ان قیدیوں میں کئی ایسے بے قصور قیدی ہونگے جن کی امریکہ کو فروخت پاکستان کے نام نکلے گی۔