وہ ایک بات
آج سال کی آخری تاریخ ہے۔
پُرانا سال دم توڑ رہا ہے اور نیا سال جنم لے رہا ہے۔ نئے سال کی آمد کے اہتمام میں رائل ہوٹل نئی نویلی دُلہن کی طرح سجایا گیا ہے۔ ہال میں مدھم سی رنگین روشنی پھیلی ہوئی ہے اور ماحول بے حد رُومان انگیز ہے۔ آرکِسٹرا کی ہلکی سی دُھن فضا میں امرت رس گھول رہی ہے۔ اُس کی سرور انگیز موسیقی دل کے تاروں کو چھو رہی ہے۔ نئے نئے رنگوں اور نِت نئی وضع کے کپڑوں میں ملبوس جوڑے آرہے ہیں۔ حُسن وزیبائش کے پیکروں سے ہال جگمگا رہا ہے۔ نوجوان جوڑے چکنے فرش پر محوِ رقص ہیں۔ ہر شخص مسرور وشادمان نظر آرہا ہے۔ آج زندگی تھرک رہی ہے، حُسن گنگنا رہا ہے، رُوح جھوم رہی ہے، دل مچل رہا ہے اور حسین جسموں کی خوشبوئیں فضا میں رچ رہی ہیں۔
ہم دونوں بھی رقص کررہے ہیں۔ اُس کے نم آلود ہونٹ انگارے کی طرح دہک رہے ہیں اور اُس کا خوبصورت چہرہ کُندن کی طرح دمک رہا ہے۔ اُس کے گداز جسم کے لمس سے میرے انگ انگ میں گد گدی سی پیدا ہورہی ہے۔
ہال میں پُر سرور موسیقی تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ فضا کیف برسا رہی ہے اور رقص میں تُندی آگئی ہے۔ نوجوان جوڑے موسیقی کے بہاؤ میں بہے جارہے ہیں۔ نوجوان جسموں کے الاؤ کے گرد ہر شخص اپنا وجود پُھنکتا ہوا محسوس کررہا ہے۔ سریتاؔ کی آنکھیں دعوتِ سرور دے رہی ہیں۔ اسکاچ وہسکی کے نشے نے مجھے اور مدہوش کردیا ہے۔ میرا وجود تپتے صحرا کی طرح جلنے لگا ہے۔ وہ بھی میرے وجود میں سماجانا چاہتی ہے۔
معاً ہال اندھیرے میں ڈوب گیا ہے۔
’’نیا سال مبارک ہو!‘‘
A happy New year to you
Heartiest New year greetings
My best wishes to you
سارے ہال میں جلترنگ سی بجنے لگی ہے۔
اب روشنی قدرے تیز ہوگئی ہے۔ آرکسٹرا کی مدُھر دھن مدھم پڑ گئی ہے اور تھکے تھکے سے حسین جوڑے اپنی اپنی جگہوں پر آگئے ہیں۔
دفعتاً سریتا گھر چلنے کو تیار ہوگئی ہے۔ لیکن اُس کے قدم لڑکھڑانے لگے ہیں۔ میں نے اسے سہارا دے کر ٹیکسی میں بٹھا دیا ہے۔ وہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جارہی ہے۔ آج پہلی بار میں اُس کے گھر جارہا ہوں۔
سریتا ایک بڑے باپ کی بیٹی اور اونچی سوسائٹی کی فرد ہے۔ وہ ایم. اے. میں پڑھتی ہے۔ اُس سے میری پہلی ملاقات ایک کیفے میں ہوئی تھی۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں اِس شہر میں نیا نیا آیا تھا۔ یہاں کی ہر چیز میرے لیے اجنبی تھی نیا شہر، نئے لوگ، نئی تہذیب، نئے چہرے ہر شے نئی تھی۔ یہاں کی زندگی رواں دواں تھی، ایک بہتی ہوئی ندی کی طرح! ہر طرف شور وغل اور ہنگامے تھے۔ شوخ قہقہوں کا ترنم، دلکش مُسکراہٹوں کی تجلیاں اور چنچل اداؤں کے جادو تھے۔ اُن رعنائیوں اور رنگینیوں کے باوجود میں خود کو تنہا محسوس کرتا۔ احساسِ تنہائی اور اجنبیت سے دل اُداس رہتا اور زندگی ایک یاس انگیز گیت بن جاتی۔ میں دل بستگی کے لیے لان، لائبریریاں، کیفے اور ہوٹل جاتا۔ لیکن کہیں بھی طبیعت نہ لگتی۔ تنہائی کی ناگن ڈستی رہتی۔ آخر کار تھک ہار کر میں اپنے کمرے میں محبوس ہوجاتا اور خیالوں کی دُھن میں کھوجاتا۔
وہ ایک حسین شام
میں کیفے میں بیٹھا، سگریٹ کے دُھوئیں کے مرغولے بنا رہا تھا کہ وہ میرے سامنے والی کرسی پر آکر بیٹھ گئی اور میری نظریں اُس پر جم سی گئیں۔ میں نے اُس کے سراپا کا جائزہ لیا۔ وہ بے حد حسین اور اسمارٹ معلوم ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں کاجل کی لکیر اور رُخسار پر غازے کی ہلکی سی سُرخی تھی۔ وہ سفید رنگ کی ساڑی میں ملبوس نَو شگفتہ کلی کی طرح میرے سامنے بیٹھی تھی۔ اُس کی آرائش وزبیائش میں ایک د ل کشی تھی، ایک جاذبیت تھی۔ اُس کی عمر کوئی زیادہ نہ تھی۔ وہ بچپن کے آنگن سے نکل کر شباب کی وادی میں محوِ خرام تھی۔ اُس کے ہر عضوِ بدن سے حسن وجوانی کی بھینی بھینی مدہوش کُن خوشبو بکھر رہی تھی۔ میری نگاہیں اُس کے حُسن وجمال کو چومنے لگیں۔ وہ مجھے مانوس دکھائی دے رہی تھی اور اُس کے ہر انداز میں مجھے اپنائیت نظر آرہی تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے مجھے وہ منزل مِل گئی جِس کی تلاش تھی!
وہ بہت جلد مجھ سے بے تکلف ہوگئی اور اب کبھی کیفے میں مل جاتی تو کبھی وکٹوریہ میموریل کے دلکش میدان میں۔ اس کا قُرب پاکر مجھے سکون اور فرحت کا احساس ہوتا۔ دشتِ تنہائی میں میری بے قرار رُوح کے لیے وہ ایک ایسا سہارا بنی جِس سے کچھ نہ پاکر بھی میں نے سب کچھ پالیا۔
ٹیکسی ایک عالیشان عمارت کے سامنے رُک گئی ہے۔ یہ اُس کا اپنا گھر ہے۔ وہ میرا ہاتھ تھامے بالائی منزل کے ایک کشادہ کمرے میں لے آئی ہے۔ اُس نے دروازہ اندر سے بند کرلیا ہے۔ کمرہ ہلکی نیلگوں روشنی میں نہا رہا ہے۔ فرش پر ایرانی قالین بچھے ہیں۔ کمرے میں الماری، ڈریسنگ ٹیبل، پلنگ، گلاس ٹینک، بُک شیلف، میز اور صوفے ہیں۔ یہ شاید اُس کی خواب گاہ ہے اور اسٹڈی رُوم بھی۔ اندر کے دروازے سے متصل بالکونی اور باتھ روم ہے۔ ڈریسنگ ٹیبل پر کمے کا ڈبّہ ہے۔ یہ اُس کا پسندیدہ پاؤڈر ہے۔یہاں ہر چیز ترتیب اور سلیقے سے رکھی ہوئی ہے۔میری نگاہیں گلاس ٹینک پر جم سی گئی ہیں جس میں چھوٹی چھوٹی لال مچھلیاں تیر رہی ہیں۔ میرے ذہن میں ایک خیال رینگ گیا ہے۔ میں سریتا کی طرف دیکھتا ہوں۔ وہ جدید طرز کے لباس میں ملبوس ہے۔ سپید جسم کے تمام خطوط نِکھر رہے ہیں اور وہ آئینہ کی طرح چمک رہی ہے۔ کِمے کی روح پرور خوشبو سے فضا معطّر ہورہی ہے۔ معاً میری نظریں الماری میں لگے قدِّ آدم آئینہ پر پڑتی ہیں اور میں اپنا سراپا دیکھ کر ایک لمحہ کے لیے سہم گیا ہوں۔ مجھے ایسا محسوس ہور ہا ہے جیسے مَیں؛ مَیں نہیں کوئی اور ہوں۔
’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ اور میں دبیز وگرم صوفے پر نیم دراز ہوگیا ہوں۔
وہ الماری سے ڈپلومٹ کی اسکاچ لاکر میرے قریب بیٹھ گئی ہے۔ وہ وہسکی میری طرف بڑھاتی ہے۔
’’نہیں، اب نہیں ‘‘
’’بس ایک اور صرف ایک میری خاطر ڈارلنگ ‘‘
اور اُس نے جام میرے ہونٹوں سے لگا دیا ہے۔ جب کوئی حسین لڑکی اپنے نرم ونازک ہاتھوں سے شراب پلاتی ہے تو سرور اور بڑھ جاتا ہے۔
اِسکاچ وہسکی کا سِپ لے کر سریتا کا حُسن اور تابناک ہوگیا ہے۔ شراب پینے کے بعد عورت اور خوبصورت معلوم ہوتی ہے، سہ آتشہ ہوجاتی ہے! سریتا کی آنکھوں میں عمر خیامؔ کی ساری شاعری سمٹ آئی ہے۔ اُس کی چشم میگوں کچھ کہہ رہی ہے۔ لیکن میں سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی نہیں سمجھ پارہا ہوں۔
وہ میرے بہت قریب سرک آئی ہے۔
’’آج تم بہت اچھی معلوم ہورہی ہو!‘‘
میں آہستہ سے اُس کی یاقوتی ہونٹوں کو چھیڑتا ہوں۔‘‘
’’سچ!‘‘
اُس کے چہرے پر مسرت کا نور پھیل گیا ہے۔
دفعتاً دروازے پر ہلکی سی دستک ہوتی ہے اور میں چونک کر اُس طرف دیکھتا ہوں۔
’’ڈونٹ وری، ڈارلنگ! وہ اندر نہیں آسکتا!‘‘
’’لیکن اِ س شیشے سے اندر تو جھانک سکتا ہے!‘‘
میں دروازے پر لگے چھوٹے قطر کے گول شیشہ کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔
وہ مُسکراتی ہوئی اُٹھ کر شیشہ سے باہر جھانکتی ہے۔
میں ایک نامعلوم کشِش اور بے نام جذبے کے تحت ڈبل بیڈ پر دراز ہوگیا ہوں جس پر ریشمی چادر بچھی ہے اور ڈنلپ کے تکیے لگائے گئے ہیں۔
وہ میرے اور قریب آگئی ہے۔
’’تم کتنے بھولے ہو!‘‘
اُس نے خُمار آلود نگاہوں سے مجھے دیکھا ہے۔
اور میں گھبراسا گیا ہوں۔ اس کے لبوں پر شرارت انگیز مسکراہٹ کھیل رہی ہے اور آنکھوں میں نشے کے شعلے لہرا رہے ہیں۔
’’آخر دروازے پر وہ شیشہ کیوں ہے؟‘‘
میرا تجسّس جاگ اٹھتا ہے۔
’’اس شیشے سے باہر تو دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن باہر سے کوئی اندر نہیں دیکھ سکتا۔‘‘
اور پھر وہ دیوانہ وار اِس طرح میری طرف بڑھتی ہے کہ میں گھبرا جاتا ہوں۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے میں کوئی بات بھول رہا ہوں جو سریتا سے پوچھنی ہے!!