وسعت شوق سے اک شمع جلائی نہ گئی

وسعت شوق سے اک شمع جلائی نہ گئی
وہ بھی کیا بات تھی جو ہم سے بنائی نہ گئی


گر مخالف تھے مرے لفظ ترے ہر خط کے
ہم سے پر خط میں ترے آگ لگائی نہ گئی


ڈور اوروں کی ہتھیلی میں رکھی ہے ہم نے
زندگی تیری پتنگ ہم سے اڑائی نہ گئی


تم گئے رونق دنیا بھی گئی ساتھ ترے
ہم سے پھر بزم محبت بھی سجائی نہ گئی


دو پہر ساتھ رہی چھوڑ دیا پھر تنہا
وہ تو خوشبو تھی کہ واپس بھی بلائی نہ گئی


نرم آغوش شفق ہونٹ گلابی چہرا
ہم سے یہ ارث جوانی بھی بلائی نہ گئی


اس نے چہرے پہ کئی چہرے لگائے راسخؔ
اس سے پر دل کی کہانی تو چھپائی نہ گئی