وہ ظلمت شب کا غلبہ ہے وہ یاس کے بادل چھائے ہیں (ردیف .. ا)

وہ ظلمت شب کا غلبہ ہے وہ یاس کے بادل چھائے ہیں
اب صبح بھی صبح امید نہیں اسے گردش دوراں کیا ہوگا


دیوار چمن پر زاغ و زغن مصروف ہیں نغمہ خوانی میں
ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا


اغراض بڑھیں اخلاق مٹے گفتار رہی کردار گئے
اس پر بھی کہیں ٹھہراؤ نہیں اے قسمت انساں کیا ہوگا


پابند سلاسل نیکی ہے حاصل ہے بدی کو آزادی
یہ شکل گر تعمیر کی ہے تخریب کا عنواں کیا ہوگا


کیوں زیست کا بحر بے پایاں محروم ہے اب اک موج سے بھی
صدیوں سے سکوت اک طاری ہے اے سطوت طوفاں کیا ہوگا


ارباب ہوس کا جمگھٹ ہے اس بزم میں کوئی رند نہیں
اے جام زر افشاں کیا ہوگا اے ساقیٔ دوراں کیا ہوگا


اس دیس میں جو بھی رہزن تھے وہ رہبر ملت کہلائے
ہر چور نگہباں ٹھہرا ہے اے قدرت یزداں کیا ہوگا