وہ تند خو ہی سہی موجۂ خزاں کی طرح

وہ تند خو ہی سہی موجۂ خزاں کی طرح
دکھائی دیتا تو ہے ابر مہرباں کی طرح


تمام رات سلگتا رہا زمیں کا بدن
سحر کھلی تو کسی جلتے بادباں کی طرح


تری تلاش میں اب بھی کھلا کہ آنگن میں
رواں ہے چاند کسی برگ نیم جاں کی طرح


میں جل رہا تھا سلگتے سفید صحرا میں
گلے ملا وہ مجھے موجۂ رواں کی طرح


چلیں وہ تند ہوائیں کہ تار تار ہوا
وہ سبز پیڑ کہ لگتا تھا سائباں کی طرح


کہاں پہ چھوڑ گیا قافلہ خیالوں کا
رکا پڑا ہوں کسی نقش بے نشاں کی طرح


برس رہے ہیں فلک سے زمین پر جگنو
فضا اداس ہے شفقتؔ لٹے مکاں کی طرح