وہ تعلق زندگی جس میں رہا با لواسطہ میں

وہ تعلق زندگی جس میں رہا با لواسطہ میں
اس سمیت اک دن سپرد طاق نسیاں ہو گیا میں


بس یہی موسم تھا ایسا ہی سماں تھا یاد ہوگا
طاق جاں میں شمع اک روشن ہوئی اور بجھ گیا میں


ایک دن ایسا کہ تھی قربان اس پر جاں سی شے بھی
ایک دن رونے لگا اک شخص سے باقاعدہ میں


داستان غم مری سننے کو اک سامع ملا جب
قہقہے پہلے لگائے اور پھر چپ ہو گیا میں


شام منبر پر فضیلت کے بہت سنجیدہ فرحاں
صبح دم افسردگی کے فرش پر بکھرا ہوا میں


واپسی کی راہ کیوں ملتی نہیں ہے ساتھ والو
گرچہ اس بازار میں آیا گیا ہوں بارہا میں