وہ شخص یوں نگاہ میں نگاہ ڈال کر گیا
وہ شخص یوں نگاہ میں نگاہ ڈال کر گیا
بجھی بجھی سی زندگی مری بحال کر گیا
وہ سادہ لوح تھا مگر غضب کی چال کر گیا
نہیں جواب جس کا مجھ سے وہ سوال کر گیا
مجھے تو اپنی جستجو اس آستاں پہ لے گئی
وہ دشمن وفا نہ جانے کیا خیال کر گیا
آ گیا تو ظلمت غم فراق چھٹ گئی
جو مہر و مہ نہ کر سکے ترا جمال کر گیا
شکن شکن جبیں نہ کر اگر امید خیر پر
فقیر تیرے در پہ آ گیا سوال کر گیا
قدم قدم پہ بت کدہ رہ حرم میں تھے مگر
مرا بچاؤ ذکر رب ذوالجلال کر گیا