وطن جس روز سے چھوٹا ہے وہ منظر نہیں ملتا

وطن جس روز سے چھوٹا ہے وہ منظر نہیں ملتا
در و دیوار مل جاتے ہیں لیکن گھر نہیں ملتا


بہت مشکل ہے دو دنیاؤں میں اک شخص کا رہنا
جو مجھ میں سوچتا ہے وہ مجھے باہر نہیں ملتا


نہ سیکھے باپ کی انگلی پکڑ کر طفل گر چلنا
اسے منزل تو مل جائے مگر رہبر نہیں ملتا


منافع خور دو دن کے لیے بھی کر نہیں سکتے
صلے میں جس عمل کے نقد مال و زر نہیں ملتا


نکالے کام اپنا خوف کی وہ پرورش کرکے
مرے دشمن کو مجھ میں کوئی ایسا ڈر نہیں ملتا


جبینوں میں تڑپتے ہیں جو سجدے وہ کہاں جائیں
دیار غیر میں جب تیرا سنگ در نہیں ملتا


مرا سجدہ ہے ضرب بت شکن پندار کے سر پر
یہاں اس راز سے واقف کوئی ہم سر نہیں ملتا


ضرورت کے مطابق سب کو اے مختارؔ ملتا ہے
گلہ اس بات کا رہتا ہے جھولی بھر نہیں ملتا