وہی ہیں اپنی راتوں کی کتھائیں
وہی ہیں اپنی راتوں کی کتھائیں
فراق یار خواب آور دوائیں
وہی اندر تموج آندھیوں کا
وہی باہر ہوا کی سائیں سائیں
یہاں ہے کون ایسا آنے والا
کہ ہم کمرہ سلیقے سے سجائیں
کوئی ان رت جگوں کی حد بھی ہوگی
دریچوں میں دیے کب تک جلائیں
کہاں تک ساتھ چل سکتا ہے کوئی
کہاں تک ساتھ دیں گی یہ دعائیں
سلگ اٹھتا ہے یوں بے ساختہ دل
چمک اٹھتی ہیں باہر کی فضائیں