وہی غم ہے وہی ایذا رسانی
وہی غم ہے وہی ایذا رسانی
اگرچہ اب نہیں آنکھوں میں پانی
جو بازاری ہیں حاکم بن گئے ہیں
وہ ہیں محکوم جو ہیں خاندانی
کبھی ایسا کرو کچھ کر دکھاؤ
کہاں تک اور کب تک لن ترانی
دکھائے گا میاں آنکھیں زمانہ
اگر قائم رہے گی بے زبانی
سہارا دو جہاں میں بیکسوں کو
پرانی ہو گئی ہے یہ کہانی
محبت پر ہے عالم جاں کنی کا
عداوت میں ہے بجلی سی روانی