وہی فرقت کے اندھیرے وہی تنہائی ہو

وہی فرقت کے اندھیرے وہی تنہائی ہو
تیری یادوں کا ہو میلا شب تنہائی ہو


میں اسے جانتی ہوں صرف اسے جانتی ہوں
کیا ضروری ہے زمانے سے شناسائی ہو


اتنی شدت سے کوئی یاد بھی آیا نہ کرے
ہوش میں آؤں تو دنیا ہی تماشائی ہو


میری آنکھوں میں کئی زخم ہیں محرومی کے
میرے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی مسیحائی ہو


وہ کسی اور کا ہے مجھ سے بچھڑ کر سیماؔ
کوئی ایسا بھی زمانے میں نہ ہرجائی ہو