عثمانی خلافت کے مجاہدین

کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے عزم ، ہمت اور استقلال کے بل بوتے پر تاریخ  کا  رخ بدل دیتی ہیں ، اور اگر تاریخ کا  رخ مکمل طور پر نہ بدل سکیں ، تو بھی اپنی انفرادی کاوش کی بنیاد پر تاریخ کے صفحات میں اپنا نام تو امر کروا ہی لیتی ہیں ۔ یہی  معاملہ ترک سپاہی ، "سید  علی" کے ساتھ بھی ہے ۔

یہ واقعہ 25 مارچ1915کاہے,  جب کہ فرانس ، برطانیہ، روس، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ وغیرہ کی فوجیں صلیب کے سائے میں خلافت عثمانیہ کے دارالحکومت پر حملہ آور ہوئیں، دوسری طرف مقابلے میں  برطانوی بحری بیڑہ "الزبتھ" تھا ، جس کو اس معرکے میں انتہائی اہمیت حاصل تھی، اور  جس کو اس فوجی نے اپنی قوت اور تدبیر سے تباہ کردیا۔  سپاہی سید علی "گیلی پولی" کے جزیرے"روملی" میں توپ خانے کے انچارج تھے۔ اس توپ خانے کا لفٹر (جس میں توپ کے گولے لوڈکیے جاتے ہیں)دشمن کی بمباری کی زد  آ  گیا  تھا ۔اس لیے سید علی  دو  سو پندرہ کلوگرام وزن کا گولہ خود  پشت پر اٹھا کر  لاتے اور اس کو توپ کے منہ پر ڈال دیتے۔

 اس سے برطانوی بحری بیڑے"الزبتھ" کو نشانہ   بنایا  جاتا ۔ جس سے اس  بحری بیڑے کو بہت نقصان پہنچا اور وہ جنگ سے باہرہوا ۔یاد رہے کہ اس بحری بیڑے کے متن  پر اس وقت کل  60 طیارے ہوتے تھے۔

اس جنگ میں اسلامی فوج کے 56ہزار جوان شہید ہوئے جبکہ دس ہزار ہسپتالوں میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے تھے، 11 ہزار فوجی لاپتہ ہوئے اور 97 ہزار زخمی ہوئے مگر اسلامی فوج استنبول کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوئی ۔ ترک افواج نے حملہ آور صلیبی اتحاد کو ماربھگایا۔

عثمانی فوج نے اس جنگ میں صلیبی اتحادیوں کے 252000 فوجیوں کو جہنم واصل کیا، جریدہ ترک پریس کے مطابق اس سال خلافت کے ملٹری کالجز اور عسکری اداروں سے کوئی طالب علم فارغ التحصیل نہیں ہوا کیونکہ تمام طلباء شہید ہوگئے تھے۔

امت کو اس عظیم جنگ عثمانی فوج کی جانب سے تباہ کن صلیبی حملےکو ناکام بنانے اور سرخ رو رہنے  کےبارے میں نہیں پڑھایاجاتا۔ بہ یک وقت دل چسپ اور درد ناک بات یہ ہے میدان میں ملنے والی اس عبرت ناک شکست کو برطانیہ اور اتحادی افواج نے شریفِ مکہ ، سید حسین بن علی  کی مدد سے اپنی فتح میں بدل دیا۔ 

بحوالہ

ترک پریس

اور

کتاب(آخری معرکے کے شہداء) از  ترک مورخ  "انس دمیر"

متعلقہ عنوانات