اس چشم نے کہ طوطیوں کو نکتہ داں کیا
اس چشم نے کہ طوطیوں کو نکتہ داں کیا
ایسی کہ اک نگہ کہ مجھے بے زباں کیا
گھبراؤں کس طرح دل پر آہ سے نہ میں
اس سوختہ نے اب تو نہایت دھواں کیا
حال اس نے پوچھا جب نہ رہی طاقت بیاں
اس پوچھنے نے اور مجھے بے زباں کیا
یا رب تو اس کے دل سے سدا رکھیو غم کو دور
جس نے کسی کے دل کو کبھی شادماں کیا
نیرنگ بے ثباتی کا ہے اس چمن کا رنگ
بلبل نے کیا سمجھ کے یہاں آشیاں کیا
مضمون خط اسی سے ہے ظاہر کہ ہوگا کیا
قاصد کی جا جو اشک کو ہم نے رواں کیا
گہہ عشوہ گہہ کرشمہ گہے ناز گہہ ادا
کس کس طرح سے اس نے مجھے امتحاں کیا
خوبوں کو ہم نشیں تو کبھی دل نہ دیجیو
میں اس معاملے میں بہت سازیاں کیا
مجنوں کا عشق سچ ہے پہ موزونوں نے رضاؔ
ذرہ سی بات تھی اسے اک داستاں کیا