تارکینِ وطن پر مغربی ممالک کے مظالم پر ہیبا گوائیڈ کے آرٹیکل کا اردو ترجمہ

 

22 ستمبر کو ، جب میں فیری سے یونان کے لیسبوس کی ہلچل مچانے والی بندرگاہ پر اتری تومجھے ایک پولیس افسر نے روکا۔ "فکر نہ کرو ، یہ صرف ایک سیکورٹی چیک ہے ،" اس نے مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا ، اور میرے دوست کے ساتھ آنے پر  اصرار کیا۔ ہمیں بندرگاہ کے آخر میں ایک خاکستری ٹریلر کی طرف  آنے کی ہدایت کی گئی ، جہاں میں  ایک عرب خاتون ،  اپنے سفید فام جرمن دوست ، ایک افغان مرد اور ایک سیاہ فام آدمی کے ساتھ  پہنچی۔ یہاں افغانی اور سیاہ فام  کا سامان میز پر پھیلا ہوا تھا ، ۔ ان کے رہائشی کارڈ نے  انہیں پناہ گزین کے طور پر شناخت کیا۔ اس کے بعد افسر نے  انہیں جارحانہ انداز میں  تھپکا اور ان کی ٹانگ کو پکڑ لیا۔

ایک خاتون افسر نے  مجھے رائفل  دکھاتے ہوئے میرے سامان سے ہر لپ اسٹک اور ہر زپ  چیک کی۔ ایک  مرد افسر نے میرا امریکی پاسپورٹ رکھتے ہوئے ، مجھ سے کئی بار پوچھا کہ" کیا تم رپورٹر ہو۔ " ، میں نے بارہا بتایا کہ مَیں ایک امریکی یونیورسٹی کی  پروفیسر ہوں  ۔ اس نے جارحانہ انداز میں میری طرف قدم بڑھایا ، "کسی کو پرواہ نہیں ہے کہ آپ کیا  کرتی ہیں"۔

          یہ تو تھا میرا یونانی بارڈر گارڈ پولیس سے مسابقہ کا ذکر۔ لیکن میں آپ کو بتاؤں، یورپی یونین کی جنوبی سرحد پر نسل پرستی واضح طور پر پھیلی ہوئی تھی۔ میں نے اگلے ہفتوں میں لیسبوس اور سموس کے جزیروں کے ساتھ ساتھ دارالحکومت ایتھنز  میں افغانستان ، شام  سے لے کر جمہوریہ کانگو اور اریٹیریا تک مختلف مقامات سے پناہ کے متلاشیوں سے ملاقات کی۔ ان سب نے تحفظ اور  بہتر زندگی کے حصول کے لیے یورپی ساحلوں تک پہنچنے کی اپنی تکلیف دہ کہانیاں شیئر کیں۔ وہ حفاظت اور بہتر زندگی جو عالمی قوانین کے مطابق ان سب کا حق ہے لیکن جنگ، بھوک و افلاس، نے انہیں   ان کے حصول کے لیے یورپ کا رخ کرنے پر مجبور کیا تھا۔ ۔ بجائے  اس کے ،کہ ان کے اس حق کا احترام  کرتے ہوئے،  انہیں یورپ میں جگہ دی جاتی، ان سب سے مجرموں اور  قانون توڑنے والوں کی طرح کا سلوک کیا  جا رہا تھا۔ وہ ان لاکھوں دوسرے لوگوں میں شامل تھے ،  جو جنگ ، ماحولیاتی انحطاط  یا ظلم و ستم کی وجہ سے اپنے گھروں سے باہر  نکلنے پر مجبور ہوئے تھے،  لیکن میڈیا نے انہیں یورپ میں نا پسندیدہ،  مہاجرین   اور  بحران کی وجہ بنا کر پیش کیا۔

میڈیا کا یہ اقدام بتاتا ہے، ہجرت کو روکنے کی کوشش میں ، گلوبل نارتھ کے ممالک ، گلوبل ساؤتھ کی سرحد پر ، جن میں یونان اور امریکہ بھی شامل ہیں ، تیزی سے پولیسنگ کے پرتشدد حربے استعمال کر رہے ہیں ، بشمول نسلی پروفائلنگ ، سرحد پر پش بیک اور قید کے۔

 تاہم ، یہ پرتشدد اقدامات ان لوگوں کو روکنے کے لیے بہت کم کام کرتے ہیں جن کے پاس جانے کے لیے جگہ کہیں بھی نہیں ہے اور کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ امیگریشن سے نمٹنے کے لیے یہ وحشیانہ ، غیر انسانی  عمل صرف نقل مکانی کے مسئلے کو بڑھا  رہا ہے ،مصائب اورا  موات کا سبب  بن رہا ہے۔

یہاں یہ بات غور کرنے کی ہے کہ یونان کو تارکین وطن کے خلاف یورپی یونین کی "ڈھال" کے طور پر سراہا گیا ہے -  ڈیجیٹل اور  فزیکل بارڈر انفراسٹرکچر پر یورپی یونین کے اربوں یورو خرچ کرنے کا ایک اہم مقام بن گیا ہے۔ ایورس میں زمینی سرحد ، اور سمندری سرحد ، بشمول ایجین جزیروں  لیسبوس ، کیوس اور سیموس ،  سب مقام  ان کوششوں کے مرکز  ہیں۔

یہ پش بیک کی غیر قانونی مشق کی جگہیں ہیں جہاں یونانی سرحدی افسران اور کوسٹ گارڈ ، فرنٹیکس کی نگرانی میں پناہ گزینوں کو ترکی واپس بھیج دیتے ہیں۔ سمندر میں پش بیک کا سراغ لگانے والی تنظیم ماری لائبرم نے اس ستمبر میں  اکیانوے پش بیک ریکارڈ  کیے  جو  ایک ریکارڈ ہے۔ پورے یورپی یونین میں ، ان طریقوں نے ایک اندازے کے مطابق  افراد کی جان لی ہے۔

 

تاہم ، پش بیک نے صرف ایک ایسا نظام بنایا ہے جہاں، پناہ کے متلاشی ہر بار اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر بار بار وہی سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جس سے وہ گزر کر آئے ہوتے ہیں ۔ ایک شامی شخص جس سے میری ملاقات ایتھنز کے ایک پناہ گزین کیمپ میں ہوئی تھی اور بشار الاسد حکومت کی بمباری سے اس کے جسم کے بائیں جانب  واضح زخم تھے ، اسے ایروس میں زمینی سرحد عبور کرنے کے لیے نو بار کوشش کرنے پر مجبور کیا گیاتھا۔  اس نے کہا کہ ہر بار جب وہ اور  اس کے کنبے کی دو خواتین یونانی طرف سے پکڑے گئے ، ان کا سامان چھین لیا گیا ، ایک جیل میں لے جایا گیا اور اگلی صبح ترکی کی سرحد پر واپس لے جایا گیا۔ میں نے افغانستان اور کانگو کے پناہ گزینوں سے بھی بات کی جنہیں کئی بار سمندر کے ذریعے بھی کوشش کرنی پڑی۔ انہوں نے اطلاع دی کہ اسمگلنگ نے اس نئے معمول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیا ہے۔ اسمگلروں کی فیسیں بڑھ گئی ہیں ، اور وہ اب ایک بروکر کو ادا کی جاتی ہیں جو انہیں کامیاب آمد کے بعد  چھوڑ دیتا ہے۔

 

اب ایک دوسری طرف دیکھیے۔ امریکی سرحدی پالیسیاں ایک اور مثال پیش کرتی ہیں کہ کس طرح بارڈر پولیسنگ ، اور خاص طور پر پش بیک ، نقل مکانی کے بحرانوں کو بڑھا دیتے ہیں۔ حال ہی میں ، بارڈر پیٹرول کے افسران کی  پناہ گزینوں کو کوڑے مارنے کی فوٹیج  منظرعام پر آئی۔ گو کہ ایسا کرنے والے سکیورٹی گارڈز   کی سخت  سرزنش کی گئی، تاہم یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ  یہ  پش بیک پریکٹس کا صرف ایک منظر تھا۔  میں آپ کو بتاتی چلوں،

 اپنے پیش رو  صدر ٹرمپ کی طرح ، صدر جو بائیڈن نے 1944 کے پبلک ہیلتھ سروسز قانون کے ٹائٹل 42 کا استعمال جاری رکھا ہے ، جو حکومت کو اجازت دیتا ہے کہ وہ غیر ملکیوں کے داخلے سے انکار کرے جو ممکنہ طور پر متعدی بیماریوں میں مبتلا ہوں۔ اس شق کے تحت کم از کم دس لاکھ افراد کو پناہ کے لیے درخواست دینے کے بین الاقوامی قانونی حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔

          یہ قانون  بارڈر پولیسنگ اور پش بیک پالیسی کا صرف تسلسل ہے جس نے آج بھی لاکھوں ہیڈین مہاجرین کو امریکی میکسکو بارڈر پر موجود  ڈل ریو ٹاؤن پر رکنے پر مجبور کر رکھا ہے۔  یہاں ان کے پاس خوراک اور پانی کی شدید قلت رکھی گئی ہے تاکہ وہ امریکہ میں داخل ہونے کی بجائے مجبور ہو کر واپس لوٹ جائیں۔

مزید یہ کہ جب پناہ کے  متلاشی امریکہ میں داخل ہوتے ہیں ، انہیں دنیا کے سب سے بڑے تارکین وطن  کے لیے حراستی نظام ،  اور یہاں تک کہ خاندانی علیحدگی کے امکان کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، جو ٹرمپ انتظامیہ کے تحت بڑے پیمانے پر رائج تھا۔

یونانی جزیرے سیموس میں  حراست   باقاعدہ قید میں بدل گئی ہے۔ میں نے وہاں کے لوگوں سے بات کی جو دو سال سے زیادہ عرصے سے پھنسے ہوئے تھے کیونکہ ان کی پناہ کی درخواستوں کا فیصلہ یہی کیا گیا تھا ۔ اکثریت ، جنگلی کیمپوں  میں خیموں رہتی تھی، جہاں پانی، بجلی اور شہری ضروریات ناپید تھیں۔

تاہم ، پش بیک ، مار پیٹ اور غیر انسانی حالات میں حراست کی یہ سفاکانہ پالیسیاں اس اقدام پر لوگوں کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں رہی ہیں۔

واضح طور  پر ہجرت کرتے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ وہ جس طرف بھاگ رہے ہیں وہ اب بھی اس سے بہتر ہے جس سے وہ بھاگ رہے ہیں۔ یہ یقین اتنا  ہےکہ وہ حکام کے ساتھ اس مڈھ بھیڑ کی پروا بھی نہیں کرتے جو  ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

          نقل مکانی کے بحران کا واحد حل یہ ہے کہ عالمی طاقتیں ترقی پذیر ممالک میں اپنے مفادات کے حصول کی خاطر  جنگ اور انسانی بحران کو ہوا دینا بند کریں۔ تاکہ وہاں صحت،تعلیم اور بہتر زندگی کے وہ تمام نظام پنپ سکیں جن کے  حصول کے لیے یہ لوگ یورپ و امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کرتے ہیں۔