انہیں بتاؤ جو کہتے ہیں کیا بچا مرے پاس
انہیں بتاؤ جو کہتے ہیں کیا بچا مرے پاس
ہر ایک چیز لٹا کر خدا بچا مرے پاس
اٹھانے والے اٹھا لے گئے خزینۂ زر
میں خوش نصیب ہوں رخت دعا بچا مرے پاس
کئی سماعتیں خائف ہیں اس لئے مجھ سے
سکوت شہر میں سنگ صدا بچا مرے پاس
میں دشمنوں کے لئے بھی تو فکر مند نہیں
کہ خیر خواہ بھی اب کون سا بچا مرے پاس
زباں کھلے تو بھرم دوستی کا جاتا ہے
خموش ہوں کہ یہی راستا بچا مرے پاس
زمانہ اس پہ بھی ناراض ہے کہ لے دے کر
حوالہ صرف ترے نام کا بچا مرے پاس